Dec ۱۸, ۲۰۱۹ ۱۶:۴۸ Asia/Tehran
  • عالم عرب ، بوعزیزی کی خود سوزی کے نو سال بعد

تیونس کے سبزی فروش نوجوان محمد بوعزیزی نے 17 دسمبر 2010 کو پولیس کے تشدد کے نتیجے میں خودسوزی کرلی تھی۔ یہ خود سوزی اسلامی بیداری کی تحریک کے آغاز اور عرب ڈیکٹیروں کے سقوط کا باعث بنی-

بوعزیزی کی خودسوزی کے نو سال کے بعد اس وقت یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت عالم عرب کی صورتحال کیا ہے؟

بوعزیزی کی خودسوزی کے بعد تیونس میں زین العابدین بن علی ، مصر میں حسنی مبارک ، لیبیا میں معمر قذافی اور یمن میں عبداللہ صالح کی بساط لپیٹ دی گئی اور ان کو اقتدار سے برطرف کردیا گیا- واضح رہے ان عرب ڈکٹیروں میں سے حسنی مبارک کا انتقال رواں سال جون میں ہوا - جبکہ قذافی ، داخلی جنگ میں 2011 میں مارا گیا- عبداللہ صالح 2018 میں ایک دھماکے میں مارا گیا اور بن علی بھی ستمبر 2019 میں بیماری کے نتیجے میں سعودی عرب میں چل بسا-

مصر کے عوام کا انقلاب 2013 میں فوجی کودتا اور 2014 میں عبدالفتاح السیسی کے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی ناکامی سے دوچار ہوگیا - عبدالفتاح السیسی نے، جو محمد مرسی کے خلاف بغاوت کرکے سنہ 2014ع میں نمائشی انتخابات کے ذریعہ اقتدار کی کرسی تک پہنچے تھے، اقتدار سنبھالتے ہی مظاہرین کے خلاف تشدد اور سرکوبی کی پالیسی اختیار کی البتہ مصر کی بہت سی سیاسی پارٹیاں سیاسی میدان میں السیسی کی کارکردگی کی مخالف ہیں- لیبیا کا انقلاب بھی داخلی جنگوں اور ایک سے زیادہ حکومتوں کی تشکیل کے باعث انحراف سے دوچار ہوگیا- تیونس کا عوامی انقلاب، عرب کے عوامی انقلاب کا واحد کامیاب نمونہ ہے- یمن کے عوام کا انقلاب بھی، 2015 میں اس ملک کے خلاف سعودی اتحاد کی مسلط کردہ جنگ کے باعث، ایک مختلف راستے پر چل پڑا- لیکن یہ انقلاب انحراف سے دوچار نہیں ہوا ہے درحقیقت یمن کے خلاف عوامی تحریک کے نوسال بعد، یمن میں چند اہم تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا جا سکتاہے-

پہلی تبدیلی یہ ہےکہ انصاراللہ اور اس کے اتحادیوں نے دارالحکومت صنعا میں، قومی نجات حکومت تشکیل دی ، اور تحریک انصاراللہ کو یمن میں ایک منظم ترین سیاسی گروہ جانا جاتا ہے اور بیرونی طاقتوں خاص طور پر سعودی عرب نے اس کی حیثیت کو تسلیم کیاہے- دوسری تبدیلی یہ ہےکہ یمن کے خلاف سعودی اتحاد کے حملے کے نتیجے میں اس ملک کا قومی اتحاد ختم ہوگیا ہے اور عملی طور پریمن سیاسی لحاظ سے، ایک سے زیادہ حکومتوں کے قیام اور جغرافیائی لحاظ سے بھی اپنی ارضی سالمیت کے تحفظ کے خاتمے کا مشاہدہ کر رہا ہے-

اس کے علاوہ عالم عرب خاص طور پر خلیج فارس میں اختلافات اور تنازعات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں- یونیورسٹی پروفیسر "محمود سریع القلم" اس بارے میں لکھتے ہیں کہ عربی نیشنلزم، بجائے اس کے کہ باہمی تعاون میں اضاف کا سبب بنے عرب ملکوں کے درمیان اختلافات اور تنازعے میں اضافے کا باعث بنے ہیں - اس تنازعے کی مثال عرب ملکوں کے درمیان رسہ کشی خاص طور پر قطر اور چار ملکوں سعودی عرب ، بحرین ، متحدہ عرب امارات اور مصر کے درمیان تنازعہ کی صورت میں ظاہر ہے اور اس کشیدگی میں ہار بھی عالم عرب کی طاقت کے مدعی سعودی عرب کی ہوئی ہے- اس سلسلے میں رونما ہونے والی تازہ ترین تبدیلیوں میں سے ایک یہ ہے کہ سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز نے باضابطہ طور پر امیر قطر شیخ تمیم کو ، دس دسمبر کو منعقد ہونے والے ریاض اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ، تاہم امیر قطر نے اس اجلاس میں شرکت سے انکار کردیا اور اس ملک کے وزیر اعظم کو ریاض اجلاس میں شرکت کے لئے بھیجا- 

اور تیسرا اور اہم موضوع یہ ہے کہ عرب اسپرنگ یا اسلامی بیداری تحریک کو نوسال گذرجانے کےبعد علاقے میں مزاحمت و استقامت کو استحکام حاصل ہوا ہے اس طرح کہ امریکی تجزیہ نگار بریان کاٹز کہتے ہیں کہ مزاحمتی محور اب صرف ایک محور نہیں ہے بلکہ اس نے اتحاد کو فروغ دیا ہےاور اس محور کی دفاعی طاقت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے - اس مسئلے کے ساتھ ہی سعودی عرب کی پوزیشن ، عرب انقلابات کے مخالف قائد کی حیثیت سے، متزلزل اور کمزور ہوچکی ہے کیوں کہ سعودی عرب کی جنگ پسندانہ پالیسیاں اور محمد بن سلمان کا دیگر عرب ملکوں کے بارے میں برتری کا نظریہ، ریا ض کے مقابلے میں ان عرب ملکوں کی استقامت کا باعث بنا ہے-

اس لئے کہا جا سکتا ہےکہ عرب اسپرنگ کے قیام کے نو سال بعد ، سعودی عرب کو چاہئے کہ اپنی پوزیشن اور ساکھ کو بہتر بنانے نیز علاقائی سطح پر مزید ناکامیوں سے بچنے کے لئے کوششیں بروئے کار لائے- عالم عرب میں بھی اس وقت سیاسی افراتفری بڑھتی جا رہی ہے جس کے سبب اقتدار پسندوں کی بنیادیں کمزور پڑتی جا رہی ہیں- 

ٹیگس