Jan ۰۸, ۲۰۲۰ ۱۷:۱۰ Asia/Tehran
  • مغربی ایشیا میں جنگ افروزی کی، امریکہ کی کوشش

اسلامی جمہوریۂ ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر، جنرل قاسم سلیمانی اور عراق کی حشد الشعبی کے نائب سربراہ ابومہدی المہندس اور ان کے ہمراہ افراد پر امریکہ کے جارحانہ حملے کے بعد، ایران نے کہا تھا کہ وہ واشنگٹن سےاس کا سخت انتقام لے گا-

امریکہ کے سینئر حکام نے ایران کے اس موقف کے بعد ،  اپنے زعم ناقص میں بظاہر بہت ٹھوس اور تہدید آمیز موقف اختیار کیا تاکہ ایران کو مرعوب کرسکیں- اسی سلسلے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل سات جنوری کو کہا کہ اگر ایران نے کوئی ایسی کاروائی کی جو اسے نہیں کرنی چاہئے تو اسے سخت نتائج بھگتنے پڑیں گے- ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ ، ایران کے ہر قسم کے اقدام کے خلاف اور ایران کے ممکنہ حملے پر ردعمل ظاہر کرنے کے لئے پورے طور پر آمادہ ہے-

امریکی صدر ٹرمپ ، 2017 سے اپنے دور حکومت میں، دیگر ملکوں خاص طور پر ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ اختیار کئے ہوئے ہے اور اس وقت بھی ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی اپنا کر اس زعم میں ہے کہ وہ تہران کے حکام کو مرعوب کرکے ان کو جنرل سلیمانی کے خون کا انتقام لینے سے باز رکھے گا-

واشنگٹن نے، کہ جسے مغربی ایشیا میں امن و استحکام کو برباد کرنے کے اپنے تخریبی اقدامات کا بخوبی علم ہے، گذشتہ چند ہفتوں کے دوران اس علاقے میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے اور کم از کم چودہ ہزار فوجی مغربی ایشیا میں تعینات کئے ہیں اور سیکڑوں ٹرانسپورٹ طیاروں اور یہاں تک کہ سویلین کارگو طیاروں کو کرایہ پر لیا تاکہ جنگی سازوسامان اور فوجیوں کو خلیج فارس میں روانہ کرے- ساتھ ہی ہفتہ ، چار جنوری کو بائیس سو امریکی میرین فوجی، یو ایس ایس باٹان USS Batan بحری بیڑے کے ذریعے مغربی ایشیا کے لئے روانہ کئے گئے ہیں-

امریکی وزارت دفاع کے ایک عہدیدار کے بقول اس بحری بیڑے کا راستہ تبدیل ہونے کے ساتھ ہی، مراکش میں فوجی مشقوں میں امریکی میرین فوجیوں کی شرکت منسوخ ہوگئی ہے اور یہ فوجی کہ جو شمالی کیرولینا کے "فورٹ براگ" فوجی اڈے سے عراق کے لئے روانہ ہوئے ہیں، امریکی فضائیہ کی ڈویژن 82 سے ملحق ہوں گے- 

امریکہ نے جمعے کو بھی اعلان کیا کہ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد، امریکہ اپنے تین ہزار ریزرو فوجیوں کو ، علاقے میں تعینات اپنے فوجیوں کی تقویت کے لئے روانہ کر رہاہے- واشنگٹن نے حال ہی میں بغداد میں امریکی سفارتخانے پر حملے کے بعد سات سو فوجیوں کو کویت میں تعینات کیا ہے- ساتھ ہی بی 52  چھ بمبار طیارے بحر ہند میں واقع ڈیا گو گارسیا جزیرے میں تعینات کئے ہیں- واشنگٹن کے ان تمام اقدامات سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ٹرمپ حکومت علاقے میں مہم جوئی کے درپے ہے اور اس سلسلے میں اس نے خلیج فارس میں بہت بڑی تعداد میں فوجی تعینات کردیئے ہیں-

امریکہ کے ان تمام اقدامات کے باوجود ایران نے اپنے سخت انتقام کے موقف پر عمل کیا اور عراق کے صوبہ الانبار میں واقع امریکی فوجی اڈے عین الاسد کو ، جو امریکی فوجیوں کا اہم فوجی اڈہ تھا، بدھ کی رات میں ایک بج کر بیس منٹ پر، ٹھیک اسی وقت کہ جب امریکی بزدلوں نے جنرل سلیمانی اور ان کے ساتھیوں پر میزائل حملہ کرکے شہید کردیا تھا ، متعدد میزائلوں سے نشانہ بنایا- البتہ پنٹاگون نے دعوی کیا ہے کہ اربیل کے فوجی اڈے کو بھی نشانہ بنایا گیآ ہے-

ٹرمپ نے اس انتقامی حملے کے گھنٹوں بعد اپنے ٹوئیٹر پیج پر لکھا"  آل از ویل " سب کچھ ٹھیک ہے! ایران کی جانب سے عراق میں دو فوجی اڈوں پر میزائل داغے گئے لیکن اب تک حالات ٹھیک ہیں۔ انہوں نے مزید لکھا کہ ہماری فوج  دنیا میں سب سے زیادہ طاقت ور اور بہترین ہتھیاروں سے لیس ہے۔ ٹرمپ نے خود کو بہت نارمل اور پرسکون ظاہر کرنے کی کوشش کی، یہ وہی ٹرمپ ہیں جنہوں نے حالیہ دنوں میں ایران کی جانب سے انتقامی کاروائی کے جواب میں دعوی کیا تھا کہ ایران کی جانب سے کسی بھی اقدام کا وہ انتہائی سخت جواب دیں گے-

امریکہ کے سابق حکام نے امریکی فوجی اڈے پر ایران کے میزائیل حملوں کے بعد ٹرمپ پر شدید تنقید کی ہے۔ امریکہ کےسابق وزیر خارجہ جان کیری نے ٹوئیٹ میں لکھا کہ افسوس کی بات ہے کہ امریکی حکومت سفارتکاری سے زیادہ، مقابلے اور تصادم میں جلدی کر رہی ہے- میرے خیال میں یہ پوری دنیا کے لئے ایک  ٹریجڈی ہے- اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنے اس انتقامی حملے سے یہ ثابت کر دکھایا کہ وہ کسی بھی صورت ٹرمپ اور دیگر امریکی حکام کی دھمکیوں اور گیڈر بھبکیوں سے مرعوب ہونے والا نہیں ہے اور واشنگٹن کے جارحانہ اور آمرانہ اقدامات کا مقابلہ کرنے نیز جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے جارحانہ اقدام کا دنداں شکن جواب دینے میں پرعزم ہے-

ٹیگس