یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بورل کا پہلا دورۂ تہران اور دوطرفہ توقعات
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بورل،اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی بار تہران کے دورے پر ہیں-
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بورل نے وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف سے ملاقات کی ہے اور دیگر اعلی عہدیداروں سے ملاقات کریں گے۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بورل کا، عہدہ سنھبالنے کے بعد یہ پہلا دورہ ایران ہے۔ اسپین سے تعلق رکھنے والے سینئیر سفارت کار جوزف بورل نے نومبر دوہزار انیس کو یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے چیف کا عہدہ سنبھالا تھا۔ انہیں گزشتہ سال موسم گرما میں فیڈریکا موگرینی کی جگہ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔
جوزف بورل نے اس سے قبل جنوری کے مہینے میں ، ہندوستان کے دارالحکومت نئی دہلی میں اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف سے ملاقات اور گفتگو کی تھی- اس ملاقات میں کہ جو پہلی بار بورل کے تقرر کئے جانے کے بعد انجام پائی، ظریف نے ایک واضح اور دستاویزی گفتگو میں، ایٹمی معاہدے کے تعلق سے یورپی ملکوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں کا ذکر کیا- آپ نے ایران کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کے بارے میں تین یورپی ملکوں فرانس، برطانیہ اور جرمنی کے اقدام کو مسترد کرتے ہوئے، ان ملکوں سے ایران کے سلسلے میں اپنا رویہ صحیح کرنے کا مطالبہ کیا -
واضح رہے کہ ایٹمی معاہدے میں شامل تین یورپی ملکوں جرمنی ، فرانس اور برطانیہ نے چودہ جنوری کو امریکہ کی کاسہ لیسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایٹمی معاہدے کے ڈسپیوٹ میکنیزم کو فعال بنانے کا اعلان کیا تھا جس کا مقصد ایٹمی حوالے سے ایرانی عوام پر دباؤ میں اضافہ کرنا ہے۔ ایران نے یورپی ٹرائیکا کے اس اقدام پر ردعمل ظاہر کیا ہے-
اپنے اظہار خیالات کی بنیاد پر جوزف بورل کا شمار، ایٹمی معاہدے کے حامیوں میں ہوتا ہے جیسا کہ انہوں نے ایران کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی سطح میں کمی کے اقدام پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا" ایران نے ایٹمی معاہدہ نہیں توڑا ہے اور اس کو مکمل طور پر ختم ہونے سے روکنے کی کوشش کرنی چاہئے- امریکہ کی جانب سے ایٹمی سمجھوتے کی مذمت کرنا ایک بری خبر ہے- امریکی اقدامات کے خلاف ایرانیوں کا جواب بجا ہے- انہوں نے ایٹمی معاہدے کو نہیں توڑا ہے بلکہ ان کا یہ کہنا ہے کہ اگر امریکی حکام اپنے وعدوں پر عمل نہیں کریں گے تو وہ بھی اپنے وعدوں پر عمل نہیں کریں گے اور ایٹمی معاہدے کے دائرے میں وعدوں میں کمی کا عمل انجام دیں گے- جوزف بورل نے اسی طرح گذشتہ سال مئی کے مہینے میں ایک واضح بیان میں اسپین کے اخبار ال پیس El Pais newspaper کے ساتھ انٹرویو میں امریکی حکومت کے یکطرفہ اور مداخلت پسندانہ اقدامات پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہماری زیادہ دلچپسی اس میں ہے کہ ایٹمی معاہدہ باقی رہے اور ہم ایرانی حکام سے یہی مطالبہ کریں گے کہ وہ بھی ایسے اقدامات عمل میں لائیں کہ یہ معاہدہ باقی رہ جائے- یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ نے اسپین کی ایک کہاوت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس وقت ایٹمی معاہدے کو باقی رکھنے کے لئے جو بھی کام انجام دے سکتے ہیں، انجام دے رہے ہیں-
جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی میں ایران کے سابق نمائندے محمد صادق آیۃ اللہی نے، ایران کے صدر کی جانب سے فور پلس ون کے ملکوں کے نام خط کے بارے میں کہ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر ایران کے خلاف سلامتی کونسل کی پابندیاں دوبارہ عائد کی گئیں تو ایران این پی ٹی معاہدے سے نکل جائےگا کہا کہ گذشتہ برسوں کے دوران ایران پر دباؤ اس حد تک ناقابل تحمل رہا ہے کہ اگر اس کا تھوڑا حصہ بھی یورپی ملکوں پر پڑتا تو وہ ہمت ہار جاتے، لیکن ایران نے اس پر صبرو تحمل سے کام لیا اس کے باوجود اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ صورتحال ہمیشہ برقرار ہے-
بورل کے نظریات اور مواقف کے پیش نظر ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ سفارتی تجربات رکھنے اور امریکہ کے بارے میں محتاط تنقیدی نقطۂ نگاہ رکھنے کے ساتھ ہی ، ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں ان کا موقف منطقی ہے- اگرچہ ایٹمی معاہدے کے تعلق سے ان کی کارکردگی کے بارے میں اظہار خیال کو، ان کی سرکاری ذمہ داری کے دائرے میں انجام پانے والے اقدامات پر چھوڑ دینا چاہئے- ابھی تک یورپی ملکوں کی جانب سے اس سلسلےمیں کوئی حوصلہ افزا علامت دیکھی نہیں گئی ہے- اب دیکھنا یہ ہے کہ بورل کے ساتھ ایرانی حکام کےمذاکرات میں کس حد تک ایٹمی معاہدے کے تعلق سے، یورپ ایران کی توقعات پر پورا اترتا ہے اور کیا یورپی ٹرائیکا، عملی طور پر ایٹمی معاہدے کے تحفظ میں ایران کے ساتھ تعاون میں کوئی دلچسپی رکھتا ہے-