سنچری ڈیل منصوبہ، امریکہ کی طویل المدت منافقت اور دوغلے پن کا نقطۂ اختتام
سنچڑی ڈیل منصوبے نے ، فلسطین کے تعلق سے گذشتہ ستر برسوں کے دورارن امریکہ کی طویل المدت منافقت اور دوغلے پن کو اس کے انجام تک پہنچا دیا-
اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر اور نمائندے مجید تخت روانچی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ فلسطین مخالف منصوبہ سنچری ڈیل کبھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوگا- یہ منصوبہ ، صیہونیوں کے غاصبانہ قبضے کے خلاف فلسطینی مزاحمت اور مسلمانوں کی تقویت ، اور سازشیں رچنے والوں کی ذلت و رسوائی کا باعث بنے گا- تخت روانچی نے صیہونیوں کی ہمہ جانبہ حمایت کے لئے امریکیوں کی خفیہ کوششوں، اور دونوں فریق کے درمیان اعتدال اور توازن برقرار کرنے کے لئے تیسرے فریق کی حیثیت سے خود کو متعارف کرانے کی امریکی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ علاقے کے بعض سادہ لوح یا واشنگٹن سے وابستہ افراد نے اس منصوبے کا خیرمقدم کیا ہے اور انہوں نے واشنگٹن کی مجوزہ راہ حل کو دل سےلگایا ہے- تخت روانچی نے فلسطین کے مسئلے کے حل کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کے منطقی حل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا یہ منصوبہ منصفانہ، منطقی اور ٹھوس قانونی اصولوں کا حامل ہے کہ اگر بہترین روش سے اور کم وقت میں اس پر عملدرآمد ہوجائے تو ستر سالہ مسئلہ فلسطین حل ہوجائے گا-
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ، انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ کے موقع پر اپنے حالیہ بیان میں مسئلہ فلسطین کے حل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ مسئلہ فلسطین کو حل کرنے اور امن قائم کرنے کا واحد راستہ مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں پر مشتمل اصلی فلسطینی باشندوں کے درمیان ریفرنڈم کرانا ہے تاکہ ان کی رائے کے مطابق پوری فلسطینی سرزمین کے لئے نظام حکومت تشکیل پائے اور فلسطین کے بارے میں، اسی طرح نیتن یاہو جیسے افراد اور دوسروں کے بارے میں بھی وہی فیصلہ کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے سینچری ڈیل سے موسوم امریکی منصوبے کو احمقانہ، خبیثانہ اور شکست خوردہ منصوبہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس منصوبے کا مقابلہ کرنے کا راستہ فلسطینی قوم اور گروہوں کی شجاعانہ استقامت و جہاد، اور عالم اسلام کی طرف سے فلسطینیوں کی بھرپور حمایت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مسئلہ فلسطین کا کلیدی حل ایک ہمہ گیر سروے میں اصلی فلسطینیوں کی شرکت سے ان کے منتخب اور مطلوبہ نظام کی تشکیل ہے۔
سنچری ڈیل منصوبے کے پس پردہ اہداف کے تحت مزاحمت کو نابود کرنا، خطے کے سیاسی جغرافیے میں اسٹریٹجک تبدیلی پیدا کرنا، فلسطینی مزاحمت کے مقابلے میں امریکی ، صیہونی، سعودی اور اماراتی اتحاد کو تقویت پہنچانا اور علاقے کے سیاسی توازن کو تبدیل کرنا ہے- امریکی صدر کے جاری کردہ سنچری ڈیل منصوبے کے مطابق اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر قدس کو سرکاری حیثیت دینا ، غرب اردن کے تیس فیصد حصے کو اسرائیل کو سونپ دینا، فلسطینی پناہ گزینوں کی ان کے وطن واپسی کی مخالفت اور فسلطین کو مکمل طور پر نہتا کرنا شامل ہے-
یہ منصوبہ ایسے وقت میں پیش کیا گیا ہے کہ جب صیہونی حکومت مکمل طور پر بند گلی میں پہنچ چکی ہے اور اسرائیل کو اس تعطل سے نکالنے کے لئے واحد امریکی آپشن، فریبکارانہ منصوبے کے ذریعے علاقے میں سیاسی پھوٹ ڈالنا ہے- اسرائیل غاصبانہ قبضے کے ذریعے وجود میں آیا اور اسی سبب سے اسے کوئی قانونی حیثیت حاصل نہیں ہے - یہ ایک تاریخی و سیاسی حقیقت ہے اور کسی بھی منصوبے سے اس کی ماہیت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا- امریکہ فلسطینی قوم کے پامال شدہ حقوق کی بازیابی اور ان تک ان کے حقوق لوٹائے جانے سے متعلق کوششوں کے بجائے، فلسطین کے اصل مسئلے کو فراموشی کی نذر کرنے کے درپے ہے-
تجربوں اور تاریخی شواہد سے ثابت ہوتا ہےکہ فلسطینی عوام کی حقیقی امنگوں اور مطالبات کو مد نظر رکھے بغیر، کسی بھی منصوبے کی کوئی حیثیت نہیں ہے- اس درمیان اس منصوبے کی ناکامی کی وجوہات کے دلائل میں دونکتہ قابل غور ہے-
پہلا نکتہ ملت فلسطین کے حقوق سے تجاوز ہے کہ جو درحقیقت مسئلے کے حقیقی فریق ہیں- سنچری ڈیل کے منصوبہ سازوں نے، اپنے اندازوں اور حساب کتاب میں بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے- انہوں نے اس بات کو بھلا دیا ہے کہ ان کو اپنے اہداف کے حصول تک رسائی میں فلسطینیوں کی مزاحمت اور استقامت و پائیداری کا سامنا کرنا پڑے گا کہ جو ان کے تمام منصوبوں کو خاک ملا دے گا-
اور دوسرا نکتہ اس منصوبے کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے منافی ہونا اور مسئلہ فلسطین کے تعلق سے بین الاقوامی قوانین سے تجاوز کرنا ہے فلسطینیوں کی اپنی سرزمین پر واپسی اور اپنے سرنوشت کا تعین کرنے کا حق فلسطینیوں کا قانونی حق ہے اس لئے فلسطینی سرزمین کے حقیقی مالکوں کو جو بات تسلیم نہیں ہے ، اسے کوئی دوسرا فریق قانونی حیثیت نہیں دے سکتا۔