فرقہ پرستوں کے منہ پر طمانچہ، غیر مسلموں نے اپنی جگہیں نماز کے لئے پیش کر دیں
گڑگاؤں میں انتہاپسند اور فرقہ پرست ہندو تنظیموں کے منہ پر اُس وقت زوردار طمانچہ لگا جب ایک ہندو بھائی نے اپنی دکان اور سکھوں نے اپنے گرودوارے میں مسلمانوں کو نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت دے دی۔
ہندوستان میں مذہبی رواداری کی فضا کو مسموم بنانے کی انتہاپسند اور فرقہ پرست جماعتوں کی کوششوں کے بیچ، جہاں ایک طرف ہریانہ صوبے کے گڑگاؤں ضلع میں کچھ جگہوں پر پچھلے کچھ ہفتوں سے فرقہ وارانہ سوچ رکھنے والی ہندو تنظیمیں کھلے میں نماز جمعہ کی ادائگی کی مخالفت کر رہی ہیں، وہیں دوسری طرف اسی صوبے کے اس ضلع میں سکھ قوم نے اپنے گرودوارے میں مسلمانوں کو جمعہ کی نماز ادا کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
گڑگاؤں سبزی منڈی میں گرودوارا گرو گووند سنگھ کے صدر شیردل سنگھ نے اخبار ’دا انڈيئن ایکسپریس‘ سے انٹرویو میں کہا: گرودوارا گرو کا گھر ہے، سبھی فرقے کے لوگوں کا ہم یہاں استقبال کرتے ہیں کہ آئیں اور عبادت کریں۔ اگر مسلمان قوم کو مجوزہ جگہہ پر نماز ادا کرنے میں مشکل ہو رہی ہے تو وہ گرودوارے میں نماز پڑھ سکتے ہیں، گرودوارا سب کے لئے کھلا ہے۔
سکھ قوم کی اس پیشکش کو مہربانی سے تعبیر کرتے ہوئے گڑگاؤں میں جمعیت علماء کے صدر مفتی محمد سلیم نے کہا کے انہوں نے گرودواروں کے نمائندوں سے ملاقات کی اور اس جمعے کو صدر بازار کے سیکٹر-39 میں نماز ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
گڑگاؤں میں ہی جہاں فرقہ وارانہ ذہنیت سے متأثر افراد مذہبی رواداری کو نظر انداز کر رہے ہیں، وہیں اسی ضلع میں ہندو فرقے کے ایک بھلے انسان اکشے یادو نے بھی اپنی خالی دکان مسلمانوں کو نماز پڑھنے کے لئے دے دی۔ گذشتہ جمعے کو انکی دکان میں 15 مسلمانوں نے جمعے کی نماز ادا کی تھی۔
اس بیچ ہریانہ کی طرز پر گجرات میں کھلی جگہ پر نماز پڑھنے کی مخالفت کی خبر سامنے آ رہی ہے۔
احمد آباد کے وسترپور علاقے میں ایک باغیچے میں مسلمانوں کی طرف سے جمعے کی نماز ادا کئے جانے کے بعد انتہاپسند ہندو تنظیم وی ايچ پی کے کارکن اس پارک کو پاک کرنے پہونچ گئے۔
بہرحال ہندوستان میں جہاں ایک طرف مذہبی منافرت پھیلانے والے عناصر سرگرم ہیں وہیں مذہبی رواداری رکھنے والے افراد بھی روادای اور انسان دوستی کی ایک نئی مثال پیش کر دیتے ہیں۔ مذہبی رواداری کے قائل افراد کی دریادلی، فرقہ پرست طاقتوں کی سازش کو ناکام بنانے میں بہت کارگر ثابت ہوتی ہے۔
خیال رہے کہ ہندوستان ہمیشہ سے ہی گنگا جمنی تہذیب اور مذہبی رواداری کے لئے دنیا بھر میں پہچانا جاتا رہا ہے تاہم گزشتہ چند برسوں میں بعض سیاسی جماعتوں اور انتہا پسند گروہوں کی جانب سے اسلاموفوبیا کو ہوا دئے جانے کے بعد سے ماحول بدلتا جا رہا ہے اور اب ملک کے مختلف علاقوں میں گاہے بگاہے مذاہب کے پیروکاروں کے مابین ٹکراؤ کی خبریں بھی سامنے آنے لگی ہیں جس کے باعث مذہبی اقلیتیں بالخصوص مسلمان عدم تحفظ کے احساس کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔