ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان کی پریس کانفرنس
اسلامی جمہوریہ ایران کا سب سے مضبوط پہلو اسلامی نظام حکومت کے لئے عوام کی بھرپور حمایت ہے۔ یہ بات وزارت خارجہ کے ترجمان صادق حسین جابری انصاری نے پیر کو ہفتہ وارپریس بریفنگ میں کہی۔
وزارت خارجہ کے ترجمان جابری انصاری نے چھبیس فروری کو ایران میں ہوئے پارلیمانی اور مجتہدین کی کونسل یا مجلس خبرگان کے انتخابات کے شاندار انعقاد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان انتخابات نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ اسلامی جمہوری نظام میں عوام کو اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنے کا پورا اختیار حاصل ہے اور یہ نظام دینی جمہوریت پر استوار ہے۔
ترجمان وزارت خارجہ نے کہا کہ گذشتہ جمعے کو ہونے والے انتخابات میں عوام کی وسیع پیمانے پر شرکت سے اسلامی جمہوری نظام اور زیادہ مضبوط و توانا ہو گا اور ایران کی خارجہ پالیسی کو بھی براہ راست اس سے فائدہ پہنچے گا۔ انہوں نے شام میں جنگ بندی کے بارے میں کہا کہ سلامتی کونسل کی قرارداد کی بنیاد پر ہفتے کی صبح سے شروع ہونے والی جنگ بندی کو جس چیز سے سب سے زیادہ خطرہ ہے وہ جنگ بندی کو ناکام بنانے کے لئے دہشت گرد گروہوں کی کوشش ہے۔
ترجمان وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ دہشت گرد گروہ اپنے مفادات شام میں جنگ اور بحران جاری رہنے میں ہی دیکھتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی برادری کے مضبوط عزم و ارادے کی بدولت شامی عوام کی مرضی کے مطابق شام کے بحران کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کا راستہ ہموار ہو گا۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے شام کے بحران کے آغاز سے ہی اس کو سیاسی طریقے سے حل کئے جانے پر زور دیا ہے اور آج بھی وہ اپنی اسی اصولی پالیسی کے تحت اس بحران کے سیاسی حل میں مدد دینے کے لئے تیار ہے اور تہران اس کے لئے ہر ممکن کوشش کرے گا۔
انہوں نے شام سے ایران کے فوجی مبصرین کے انخلا کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ شام میں ایران کے فوجی مبصرین کی موجودگی شامی حکومت کی باضابطہ درخواست کی بنیاد پر ہے اور جب تک شام چاہے گا اس وقت تک ایران کے فوجی مبصرین دونوں ملکوں کے درمیان طے پانے والے سمجھوتے کے مطابق وہاں موجود رہیں گے۔انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں کوئی تیسرا فریق دخل نہیں دے سکتا۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے بعض عرب ملکوں کے ذریعے ایرانو فوبیا پھیلانے کی پالیسی پرتنقید کرتے ہوئے کہا کہ افسوس کہ بعض عرب ممالک بدستور ایرانو فوبیا پھیلانے کی پالیسی پر ہی عمل کر رہے ہیں اور اپنے داخلی مسائل پر توجہ دینے کے بجائے ایسی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں کہ جن سے اختلافات میں شدت پیدا ہوتی ہے۔ انہوں نے عرب ملکوں کو سفارش کی کہ وہ اپنی داخلی مشکلات دیگر ملکوں میں منتقل کرنے کے بجائے انہیں حل کرنے کی فکر کریں۔