امریکی حکام سیاسی اور اخلاقی صلاحیت سے عاری
اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نمائندے نے امریکی ہم منصب کو یہ بات یاد دلائی ہے کہ امریکی انتظامیہ ملک میں مظاہرین کے خلاف کس طرح پیش آتی ہے جس کی وجہ سے امریکی حکام دنیا میں سیاسی اور اخلاقی حیثیت اور صلاحیت کھو چکے ہیں۔
ارنا کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نمائندے غلام علی خوشرونے کہا کہ بدقسمتی سے سلامتی کونسل کے اکثر مستقل رکن ممالک کی مخالفت کے باوجود ایران کے اندرونی معاملات کے حوالے سے خصوصی نشست کا انعقاد کیا جاتا ہے جو سراسر دوہرے معیار کی علامت ہے. انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل کو عالمی سطح پر امن و امان برقرار کرنے کی اپنی ذمہ داری پر عمل کرنا چاہئیے نہ کہ وہ کام کرے جو اس کے دائرے سے خارج ہو۔
ایران کے نمائندے نے سلامتی کونسل پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی کونسل فلسطین جیسے اہم مسئلہ اور یمن پر سعودی عرب کی وحشیانہ اور مجرمانہ بمباری پر جس میں اب تک ہزاروں افراد شہید ہوچکے ہیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے لیکن ایران کے داخلی اور اندورنی مسئلہ پر بحث کے لئے امریکہ کے دباؤ میں اجلاس طلب کرلیا۔
غلام علی خوشرو نے ایران کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلتوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ 1953 میں امریکہ نے اس وقت کے وزیر اعظم کے خلاف کودتا کیا، ایران پر مسلط کردہ 8 سالہ جنگ میں صدام کی بعثی حکومت کی حمایت کی، ایران کے مسافر بردار طیارے کو خلیج فارس میں مار گرایا جس میں 66 بچوں سمیت 290 افراد سوار تھے ۔ ایران کے مندوب نے اس موقع پر سلامتی کونسل کے نمائندوں سے سوال کیا کہ کس لئے امریکہ کی اس قسم کی جارحیتوں پر سلامتی کونسل کا اجلاس طلب نہیں کیا گیا۔
غلام علی خوشرو نے کہا کہ امریکی حکام نے اپنے ہی ملک میں کون کونسے جرائم نہیں کئے کیا 2011 میں وال اسٹریٹ تحریک کو دبانے کے لئے امریکی حکومت نے بھر پور طاقت کا استعمال نہیں کیا۔ 1970میں کنٹ یونیورسٹی میں طلباء کے پر امن مظاہروں کو کچلنے کے لئے امریکی حکام اور 1993 میں ٹیکساس میں امریکی ایف بی آئی نے عیسائی فرقہ داودیہ پر حملہ کرکے عورتوں اور بچوں سمیت 83 افراد کو ہلاک نہیں کیا لیکن امریکہ کے اس قسم کی جارحیتوں اور وحشیانہ اقدامات کا سلامتی کونسل میں کسی نے شکایت تک نہیں کی ان پر بحث کرنا تو دور کی بات ہے۔