صدر ایران دو یورپی ملکوں کا دورہ مکمل کر کے وطن واپس پہنچ گئے
صدر ایران ڈاکٹر حسن روحانی، دو یورپی ملکوں سوئیزرلینڈ اور آسٹریا کا دورہ مکمل کر کے تہران واپس پہنچ گئے۔
صدر ایران نے دورہ سوئیزرلینڈ میں دونوں ملکوں کے درمیان سائنس، صحت اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں تعاون کی تین یادداشتوں پر دستخط کیے۔
انھوں نے برن میں اپنے قیام کے دوران سوئیزرلینڈ کے صدر کے ساتھ ملاقات کے علاوہ دونوں ملکوں کے تاجروں اور صنعتکاروں سے بھی ملاقات اور گفتگو کی۔
صدر مملکت نے اپنے دورہ آسٹریا کے دوران اس ملک کے صدر، چانسلر اور لاٹ پادری سے بھی ملاقات کی اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔
ڈاکٹر حسن روحانی نے بدھ کی شب ویانا میں آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل یوکیا آمانو کے ساتھ بھی ملاقات کی۔ صدر ایران نے اس موقع پر کہا کہ ایٹمی ٹیکنالوجی کے پرامن استعمال کا فروغ اور ملکوں کے ایٹمی حقوق کا دفاع کرنا آئی اے ای اے کی اہم ترین ذمہ داری ہے۔
انھوں نے ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی یکطرفہ علیحدگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورت حال میں ایٹمی معاہدے کے باقی ماندہ فریقوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ امریکی اقدامات کے مقابلے میں ڈٹ جائیں اور ایٹمی معاہدے میں پیدا ہونے والے عدم توازن کو دور کرنے کی کوشش کریں۔
صدر ایران نے یہ بات زور دے کر کہی کہ اگر ایٹمی معاہدے سے ایرانی عوام کے مفادات پورے نہ ہوئے تو ایران کے لیے اس معاہدے میں شامل رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں بچے گا۔
آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل یوکیا آمانو نے اس ملاقات میں جامع ایٹمی معاہدے کو ایک عظیم فنی اور سفارتی دستاویز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران نے اس معاہدے پر مکمل طور سے عمل درآمد کیا ہے۔
یوکیا آمانو نے ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی کے باوجود ایران کی جانب سے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیے جانے کی بھی تعریف کی۔
صدر مملکت نے سوئیزرلینڈ اور آسٹریا کے دورے کے موقع پر ان ملکوں میں مقیم ایرانی شہریوں سے بھی ملاقات کی۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی کا کہنا تھا کہ ایران مخالف امریکی پابندیوں کا مقصد ایرانی عوام کی فلاح و بہبود کے راستے میں مشکلات کھڑی کرنا ہے۔
صدر ایران نے کہا کہ امریکی حکومت کے اقدامات ایک جرم، ظلم اور ہماری قوم کے حقوق پر کھلی ڈاکہ زنی ہے۔
ڈاکٹر حسن روحانی نے مزید کہا کہ آج بعض طاقتیں انسانوں کو ان کے حقوق اور قومی مفادات سے محروم کرنا چاہتی ہیں لہذا تمام ملکوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس لاقونیت اور خودسرانہ پالیسیوں کا مقابلہ کریں اور اس دباؤ کو مسترد کر دیں۔