جب سیلاب آیا تو رہبر انقلاب نے کیا کیا؟!
"... سیلاب کو آتے ہوئے دو تین گھنٹے ہو گئے تھے اور ہم اس مدت کے دوران یکے بعد دیگرے گھروں کے گرنے کی آواز سن رہے تھے ..."
[رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای مد ظلہ نے عربی زبان میں اپنی جوانی، شاہی حکومت کے خلاف اپنی جد و جہد اور شہر بدری کے دور میں پیش آنے والے اہم اور یادگار واقعات پر مبنی ایک ڈائری مرتب کی ہے جس کا فارسی میں ترجمہ ’’خون دلی کہ لعل شد‘‘ کے نام سے کیا گیا ہے۔اس ڈائری سے ایک دلچسپ واقعہ آپ کے پیش خدمت ہے۔یہ واقعہ آیت اللہ خامنہ ای کی’’ ایران شہر‘‘ میں شہر بدری کے دوران پیش آیا۔]
"...نماز کے بعد میں نے دیکھا کہ پورا شہر سیلاب کی زد میں آ چکا ہے اور پانی کی سطح بڑھتی جا رہی ہے۔ یہاں تک کہ مسجد کا ایوان جو زمین کی سطح سے آدھا میٹر اونچا تھا،پانی وہاں تک پہونچ گیا تھا۔میں نے بلند آواز سے لوگوں سے کہا کہ سیلاب کو روکنے کے لئے کوئی اقدام کریں۔پہلے میں بولا کہ مسجد میں بچھے فرش کو سمیٹ کر اسے کسی اونچی جگہ رکھ دیا جائے تاکہ پانی سے اسے نقصان نہ پہونچے۔اس کے بعد میں نے لوگوں سے کہا کہ بچوں اور خواتین کی حفاظت کے لئے لازمی احتیاط برتی جائے۔
سیلاب کو آتے ہوئے دو تین گھنٹے گزر گئے تھے اور ہم اس مدت کے دوران یکے بعد دیگرے گھروں کے گرنے کی آواز سن رہے تھے۔یہاں تک کہ ہمیں خوف یہ لاحق ہونے لگا کہ کہیں مسجد بھی منہدم نہ ہو جائے۔بڑا وحشتناک منظر تھا۔لائٹ کٹ جانے کے سبب چاروں طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا اور سیلاب تھا کہ امان نہیں لینے دے رہا تھا،مکانات گر کر تباہ ہو رہے تھے اور لوگوں کے چیخنے چلانے کی آوازیں بلند تھیں۔
(عموما) ایسے ہولناک اور بحرانی حالات میں انسان کا دماغ ذرا حرکت میں آتا ہے اور پھر وہ ہر اس وسیلے کو تلاش کرنا شروع کرتا ہے جس کے سہارے موجودہ صورتحال کا مقابلہ کیا جا سکے۔
میں نے کبھی یہ سنا تھا کہ بڑے اور یقینی خطرے کو ٹالنے کے لئے (خدا کے اذن سے) حضرت سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کی تربت سے توسل کیا جا سکتا اور اسے وسیلہ بنایا جا سکتا ہے۔
میری جیب میں تربت امام حسین علیہ السلام کا ایک ٹکڑا رکھا ہوا تھا (وہی تربت) جسے خدا نے فرزند پیغمبر (ص) کے طفیل میں شرف عطا فرمایا ہے۔ میں نے اسے جیب سے نکالا اور خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے اس کو سیلاب کی متلاطم لہروں کے درمیان پھینک دیا۔کچھ ہی دیر کے بعد بفضل خدا سیلاب اور پانی کا ریلا رک گیا۔
اسکے بعد ہم نے متأثرین سیلاب کی مدد کے لئے ایک کمیٹی بنائی۔اُس رات کوئی خاص کام انجام نہیں دیا جا سکتا تھا،اس لئے امدادی سرگرمیوں کو ہم نے صبح پر ٹال دیا۔
اسکے بعد میں گھر گیا...
...جب میں گھر پہونچا تو دیکھا کہ گھر صحیح سالم ہے اور پانی بس اس کے قریب تک آیا ہے۔
شہر میں یہ شور مچ گیا کہ جلا وطن لوگوں کا گھر صحیح سالم ہے اور پانی نے اسے نقصان نہیں پہونچایا۔شہر والوں نے اس واقعے کو ہمارے لئے ایک کرامت تصور کیا۔مگر میں نے لوگوں کو بتایا کہ نہیں بھئی ایسا نہیں ہے،بلکہ پانی کے ہمارے گھر میں نہ آنے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا گھر ذرا اونچائی پر واقع ہے،اس لئے یہ کوئی کرامت یا معجزہ نہیں ہے! "