ایران کے صدر کی دہشتگردوں کا قلع قمع کرنے اور بے گناہ انسانوں کی جان کی حفاظت پر تاکید
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے ادلب میں دہشتگردوں کا قلع قمع کرنے اور بے گناہ انسانوں کی جان کی حفاظت پر تاکید کی ہے
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر حسن روحانی نے ترکی اور روس کے صدر سے علیحدہ علیحدہ ٹیلی فونی گفتگو میں دہشتگردوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور ادلب میں بے گناہ انسانوں کی جان کی حفاظت پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ آستانہ مذاکرات کے عمل کو کمزور نہیں ہونے دینا چاہئے۔ صدر حسن روحانی نے سنیچر کو ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کو فون کر کے ایران ، ترکی اور روس کے سہ فریقی اجلاس کے انعقاد کی تجویز پیش کی اور کہا کہ شام کی ارضی سالمیت کے تحفظ ، دہشتگردوں کے خاتمے اور ادلب کے مسئلے کے فوری حل جیسے اصولوں کی بنیاد پر تینوں ملکوں کے درمیان ہونے والے سمجھوتے کے پیش نظر اس اجلاس میں اختلافات کو دور کیا جا سکتا ہے۔صدر حسن روحانی نےشام کے مسئلے کے حل کے لئے تینوں ملکوں کے درمیان سہ فریقی تعاون کی خاص اہمیت کی جانت اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران ، آستانہ مذاکرات کے تناظر میں آئندہ سہ فریقی اجلاس کی میزبانی کے لئے تیار ہے ۔ اس ٹیلی فونی گفتگو میں ترکی کے صدر نے بھی شام کے حالات میں ایران کے کردار کو موثر قرار دیتے ہوئے مسئلہ شام کا واحد راہ حل صرف سیاسی مذاکرات کو قرار دیا اور اس سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے تعاون و مدد کی اپیل کی ۔رجب طیب اردوغان نے آستانہ مذاکرات کے تناظر میں ، ایران، روس اور ترکی کے سہ فریقی معاہدوں کے اثرات پر تاکید کرتے ہوئےکہا کہ ان مذاکرات کے بہت اچھے نتائج سامنے آئے ہیں اور پائدار امن کے لئے اس کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔آستانہ مذاکرات جنوری دوہزار سترہ میں ایران کی پہل اور روس و ترکی کے تعاون سے انجام پائے تھے اور اس کا مقصد شام میں امن قائم کرنا ہے۔ایران کےصدر نے اسی طرح روس کے صدر ولادیمیر پوتین سے بھی ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہرگز قابل قبول نہیں ہے کہ شام کا ایک حصہ برسوں تک دہشتگردوں کے قبضے میں باقی رہے ، صدر حسن روحانی نے کہا کہ شام کے مسئلے کا حل صرف اور صرف سیاسی ہے اور ادلب کے حالات کو شام کے مسئلے میں امریکیوں کی مداخلت اور ناجائز فائدہ اٹھانے کے موقع میں تبدیل نہیں ہونے دینا چاہئے۔اس گفتگو میں روس کے صدر ولادیمیر پوتین نے بھی شام کے مسئلے کے حل کے لئے آستانہ مذاکرات کے عمل کے تناظر میں انجام پانے والے سمجھوتے کو بہت موثر قرار دیا اور کہا کہ کم کشیدہ علاقہ قائم کرنے کا مطلب دہشتگردی کے خلاف جنگ نہ کرنا نہیں ہے ۔ صدر پوتین نے تہران کی جانب سے آستانہ عمل کے تحت ایران ، روس اور ترکی کے سہ فریقی سربراہی اجلاس کی میزبانی پر آمادگی کا خیرمقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔صوبہ ادلب میں جو دہشتگردوں کا آخری ٹھکانہ شمار ہوتا ہے، شام اور اس کے اتحادیوں کی فوجی کارروائیوں پر ترکی نے منفی ردعمل ظاہر کیا ہے اور مسلسل دھمکیاں بھی دے رہا ہے۔ترکی کی فوج نے ادلب میں گذشتہ دنوں بارہا شام کی بنیادی تنصیبات اور اس کے فوجی اڈوں کو نشانہ بنایاہے۔