ایٹمی معاہدے پر کاربند رہنے کے بارے میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی کا دعوی
آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز میں ایران مخالف قرارداد کی منظوری سے پسپائی اختیار کرنے کے بعد برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے۔
بین الاقوامی ایٹمی معاہدے میں شامل تین یورپی ملکوں برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے جمعرات کی رات ایک بیان میں ایران اور ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کے درمیان ہونے والی حالیہ مفاہمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے ایران کے خلاف قرارداد کی منظوری سے دستبرداری کا فیصلہ کیا ہے۔
تینوں یورپی ملکوں نے اس بات کا دعوی کرتے ہوئے کہ وہ ایٹمی معاہدے پر کاربند ہیں، کہا ہے کہ اس معاہدے پر عمل تمام فریق ملکوں کے سیکورٹی مفاد میں بھی ہے۔
دوسری طرف اقوام متحدہ کے ویانا ہیڈ کوارٹر میں ایران کے مستقل مندوب نے کہا ہے کہ قرارداد سے پسپائی، ایران کے وسیع پیمانے پر صلاح و مشورے اور آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز میں شامل ملکوں کی درایت و ہوشیاری کا نتیجہ ہے۔انھوں نے اس قرارداد کو آگے نہ بڑھائے جانے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام کئی اہم وجوہات کا نتیجہ ہو سکتا ہے جن میں قرارداد سے متعلق آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کے رکن ملکوں کی عدم دلچسپی ، قرار داد کا موجودہ حالات و صورت حال کے مطابق نہ ہونا، اس کی منظوری پر ایران کے ردعمل کی بابت تینوں یورپی ملکوں کی تشویش، ایران کے ساتھ تعاون جاری رکھنے اور اس فیصلے کی حمایت کئے جانے کی ضرورت کے بارے میں آئی اے ای اے کے سربراہ کے بیان کے پیش نظر اس قرارداد کا بلا جواز ہونا اور اس بات کا امکان بھی ہوسکتا ہے کہ قرارداد کے نتیجے میں مواقع ضائع ہونے نیز تعاون کا ماحول متاثر ہونے پر مغرب کو سخت تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
انھوں نے روس اور چین کے اصولی موقف کی قدردانی کرتے ہوئے امریکہ اور تینوں یورپی ملکوں کو نصیحت کی کہ وہ ایٹمی معاہدے میں واپسی اور اس پر عمل نیز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کے مطابق قدم اٹھانے کے بارے میں پائے جانے والے سفارتی مواقع سے استفادہ کریں۔ انھوں نے کہا کہ ایران بھی نیک نیتی کا جواب نیک نیتی سے ہی دے گا۔
تہران نے ایران کے خلاف پابندیاں ختم کرانے اور ایرانی قوم کے مفادات کے تحفظ کے لئے پارلیمنٹ سے منظور کئے جانے والے قانون کی چھٹی شق پر عمل کرتے ہوئے تئیس فروری سے سیف گارڈ اور ایڈیشنل پروٹوکول پر رضاکارانہ طور پر عمل کرنا بند کر دیا۔ البتہ اس قانون پر عمل درآمد شروع ہونے سے دو روز قبل، آئی اے ای اے کے سربراہ رافائل گروسی کے دورہ تہران میں ایران اور ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کے درمیان ایک عارضی مفاہمت انجام پائی۔ اس مفاہمت میں طے پایا ہے کہ ایران تین ماہ تک اپنی ایٹمی سرگرمیوں کی نگرانی کا عمل ریکارڈ کرے گا اور اطلاعات جمع کرتا رہے گا تاہم انہیں اپنے ہی پاس محفوظ رکھے گا اور اس عرصے کے دوران ان معلومات تک آئی اے ای اے کو کوئی دسترسی حاصل نہیں ہو گی۔ تین ماہ کے اندر اگر ساری پابندیاں ختم کر دی گئیں تو ایران یہ ساری اطلاعات و معلومات ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کو فراہم کر دے گا ورنہ یہ ساری معلومات ہمیشہ کے لئے ختم کر دی جائیں گی۔