ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں بائیڈن کے بے بنیاد دعؤوں کی تکرار
امریکی صدر نے ایک بار پھر ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کے بارے میں اپنے بےبنیاد دعوے کو دہرایا ہے -
امریکی صدر جوبائیڈن نے کانگریس میں خطاب کرتے ہوئے ایٹمی سمجھوتے سے واشنگٹن کے یکطرفہ طور پر باہر نکلنے کی طرف کوئی اشارہ کئے بغیر دعوی کیا ہے کہ وہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں اپنے اتحادیوں سے قریبی تعاون کریں گے تاکہ اس سے پیدا ہونے والے خطرات کا جائزہ لیا جاسکے ۔
ڈونالڈ ٹرمپ کے دور صدارت میں امریکا ایٹمی سجھوتے سے یکطرفہ طور پر باہر نکل گیا اور امریکی حکومت نے ایران کے عوام کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی پالیسی پرعمل کرکے اقتصادی دہشتگردی کا ارتکاب کیا۔
موجودہ امریکی صدرجوبائیڈن نے ایران کے سلسلے میں وائٹ ہاؤس کی سابقہ پالیسیوں پر نکتہ چینی توکی ہے تاہم ایٹمی سمجھوتے میں واپسی کو ایران کے اقدام سے مشروط کردیا ہے۔ انھوں نے اس بات کی جانب کوئی اشارہ کئے بغیر کہ کس حکومت نے ایٹمی سمجھوتے کی خلاف ورزی کی ہے وعدہ کیا ہے کہ اگر ایران ایٹمی سمجھوتے پر مکمل عمل درآمد شروع کردے توواشنگٹن بھی اس سمجھوتے میں واپس آجائے گا۔
جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران واضح کرچکا ہے کہ وہ اسی وقت ایٹمی سمجھوتے پر مکمل عمل درآمد شروع کرے گا جب امریکہ صرف کاغذ پرنہیں بلکہ عملی طور پر تمام پابندیاں منسوخ کردے اور ایران پابندیوں کی منسوخی کی سچائی کو پرکھ بھی لے ۔
دوسری جانب امریکہ کے ڈیفنس انفارمیشن شعبے کے سربراہ نے بھی تہران کے خلاف واشنگٹن کے پروپیگنڈوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا ہے کہ ایران ، مغربی ایشیا میں امریکی مفادات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔
اسکاٹ ڈی بریئر نے امریکی سینٹ میں مسلح افواج کمیٹی میں ایران کے بارے میں اپنے بے بنیاد خیالات کا اظہار کرتے ہوئے دعوی کیا کہ ایران اپنے پڑوسیوں کو اپنی طاقت دکھانا چاہتا ہے ۔ انھوں نے اپنا بے بنیاد بیان میں عراق کو علاقے میں تہران کے اثرونفوذ کا میدان بتایا ہے ۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ ایران نے داعش کے خلاف جنگ میں بغداد حکومت کی باضابطہ دعوت پر فوجی مشاورت کے ذریعے تعاون کیا ہے۔