ایٹمی معاہدے میں واپسی کا راستہ طویل ہے . . . . واشنگٹن آئندہ بھی اسرائیل کے موقف اور مفادات کو مدنظر رکھے گا : جو بائیڈن
امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ ایٹمی معاہدے میں واشنگٹن کی واپسی کے لیے ابھی طویل راستہ طے کرنا باقی ہے۔ یہ بات انہوں نے غاصب صیہونی حکومت کی خفیہ ایجنسی موساد کے سرغنہ کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہی۔
صیہونی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے ایکسس ویب سائٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے صیہونی حکومت کی خفیہ ایجنسی موساد کے سرغنہ یوسی کوہن کو اطمینان دلایا ہے کہ واشنگٹن آئندہ بھی اسرائیل کے موقف اور مفادات کو مدنظر رکھے گا۔
اس رپورٹ کے مطابق یوسی کوہن نے بھی اس ملاقات میں ایٹمی معاہدے میں اصلاح سے قبل امریکہ کی واپسی کو ایک غلط اقدام قرار دیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ امریکی صدر اور موساد کے سرغنہ کے درمیان یہ ملاقات جمعے کی شام جو بائیڈن سے صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بن یامین نیتن یاھو کی ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کے بعد انجام پائی ہے۔
ایکسس ویب کا کہنا ہے کہ بائیڈن اور کوہن کے درمیان یہ ملاقات تقریبا ایک گھنٹے تک جاری رہی اور اس میں اسرائیلی وفد کا کوئی دوسرا رکن شامل نہیں تھا۔ جبکہ سی آئی اے کے سربراہ نکلولس برنز اور قومی سلامتی کے مشیر جک سالیوان صدر بائیڈن کے ہمراہ موجود تھے۔
قومی سلامتی کے امریکی مشیر جیک سالیوان نے دعوی کیا ہے کہ ہمارے سفارت کار آنے والے ہفتوں کے دوران ایٹمی معاہدے میں واپسی کی غرض سے بات چیت کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ انہوں نے یہ بھی دعوی کیا کہ پابندیوں کے خاتمے کے حوالے سے اختلافات بدستور باقی ہیں اور انہیں دور کیے جانے کی ضرورت ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ ایٹمی معاہدے کے رکن ممالک پچھلے تین ہفتے سے ویانا میں جمع ہیں اور معاہدے کی بحالی اور امریکہ کی ممکنہ واپسی کے بارے میں صلاح و مشورے کر رہے ہیں۔ اسی دوران روسی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیا ہے کہ جس میں ایٹمی معاہدے کے مشترکہ کمیشن کے اجلاس میں پیشرفت کی بات کہی گئی ہے۔
بیان میں آیا ہے کہ یکم مئی کو ویانا میں ایٹمی معاہدے کے مشترکہ کمیشن کے اجلاس میں ایٹمی معاہدے کی مکمل بحالی کی غرض سے اب تک انجام پانے والے مذاکرات کے نتائج کا جائزہ لیا گیا۔
روسی وزارت خارجہ کے بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ ایٹمی معاہدے کے مشترکہ کمیشن کا اگلا اجلاس آئندہ ہفتے ہوگا تاہم ماہرین کی سطح پر قائم کیے جانے والے ورکنگ گروپ بلا وقفہ اپنا کام جاری رکھیں گے۔
واضح رہے کہ امریکہ نے صدر ٹرمپ کے دور حکومت میں ایٹمی معاہدے سے یکطرفہ علیحدگی اختیار کرتے ہوئے، ایرانی عوام کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی غرض سے اقتصادی دہشت گردی کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔
نئی امریکی حکومت نے ٹرمپ کے اس اقدام کو غلط قرار دیا ہے اور معاہدے میں واپسی کا ارادہ ظاہر کیا ہے لیکن جوبائیڈن کی حکومت نے اس کی طرف کوئی اشارہ کئے بغیر کہ پہلے امریکا نے معاہدے سے نکلنے اور اس کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے، پہلے ایران سے جوابی اقدامات واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
لیکن اسلامی جمہوری ایران یہ بات واضح کر چکا ہے کہ وہ ایٹمی معاہدے پر دوبارہ عملدرآمد صرف اسی صورت میں شروع کرے گا جب تمام امریکی پابندیاں عملی طور پر ختم اور تہران کو شفاف میکنیزم کے ذریعے جانچ پڑتال کے بعد ، پابندیوں کے خاتمے کا پورا یقین حاصل ہوجائے گا۔