مذاکرات کی کامیابی کی خاطر، اپنے حقوق سے دستبردار نہیں ہوں گے: علی ربیعی
حکومت ایران کے ترجمان نے کہا ہے کہ مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے اپنے حقوق سے چشم پوشی نہیں کی جائے گی ور اگر ہمارے اہداف پورے نہ ہوئے تو آئندہ حکومت مذاکرات کو جاری رکھے گی۔
ایران کی حکومت کے ترجمان علی ربیعی نے منگل کو ایک پریس کانفرنس میں ایٹمی سمجھوتے کی تازہ ترین صورت حال کے بارے میں کہا کہ ہماری نظر میں اب تک مذاکرات کی میز پر جن جن موضوعات پر گفتگو ہونا چاہئے تھی ان پر تبادلہ خیال کیا جا چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا موقف تمام فریقوں کے لئے پوری طرح واضح ہے اور ہم اس پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ علی ربیعی نے کہا کہ مذاکرات ایسے مرحلے پر پہنچ چکے ہیں کہ اب تمام فریقوں کو اپنا فیصلہ کرنا ہے. انھوں نے کہا کہ ہم اپنا فیصلہ کر چکے ہیں اور اس کا اعلان بھی کر چکے ہیں اور اب امریکہ سمیت دیگر فریقوں کو اپنے سیاسی فیصلے کا اعلان کرنا ہے تاکہ اسی کی بنیاد پر مذاکرات کے آئندہ دور میں کھل کر بات کی جا سکے۔
ایران کی حکومت کے ترجمان نے کہا کہ انرجی، مالی، بینکنگ اور انشورنس وغیرہ جیسے ایرانی اقتصاد کے بنیادی شعبوں سے پابندیوں کے خاتمے کے بارے میں اتفاق نظر پایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرمذاکرات کےایجنڈے میں موجود تمام موضوعات پر اتفاق رائے پیدا نہ ہوا تو گویا عملی طور پر اتفاق حاصل نہیں ہوا اور اگر تمام موضوعات میں اتفاق رائے پیدا ہوجائے تو ہم ایک متفقہ سمجھوتے پر بات کر سکتے ہیں۔
دوسری جانب امریکہ کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ایٹمی سمجھوتے کی بحالی کے سلسلے میں ویانا میں ہونے والے بالواسطہ مذاکرات میں کچھ پیشرفت ہوئی ہے تاہم مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کی راہ میں بعض بنیادی اختلافات موجود ہیں۔
الجزیرہ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق انٹونی بلینکن نے منگل کو اپنے ایک تازہ بیان میں ایران کے ساتھ ایٹمی سمجھوتے کی بحالی کے لئے ہونے والے ویانا مذاکرات میں نیا موقف اختیار کیا ہے۔ بائیڈن حکومت کے نئے وزیر خارجہ نے ایٹمی سمجھوتے کی خلاف ورزی کے سلسلے میں امریکہ کی ذمہ داریوں کی جانب کوئی اشارہ کئے بغیر دعوی کیا کہ ایران کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ایٹمی سمجھوتے میں واپسی کے لئے تیار ہے یا نہیں؟!
ایٹمی سمجھوتے میں امریکی مطالبات اور توقعات میں ایسی حالت میں بڑھتی جا رہی ہیں کہ سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ آٹھ مئی دوہزار اٹھارہ کو یکطرفہ طور پر اس بین الاقوامی سمجھوتے سے باہر نکل گئے تھے اور ایران کے خلاف مختلف شعبوں میں شدیدترین پابندیاں نافذ کر دی تھیں۔
ایران نے ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کے یکطرفہ طور پر نکلنے کے بعد دوسرے فریقوں کی جانب سے سمجھوتے پر عمل درآمد کرنے کی شرط پر اسے زندہ رکھنے کی بھرپور کوشش کی تاہم اب تک یورپی فریقوں نے جو وعدے کئے تھے ان میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں کیا ہے۔