جوہری معاہدے کی بحالی کے لئے یورپی لیت و لعل کا سلسلہ جاری
جرمن وزارت خارجہ نے بین الاقوامی ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی غیر قانونی علیحدگی اور اس معاہدے کے سلسلے میں یورپی ملکوں کی وعدہ خلافیوں کی طرف کوئی اشارہ کئے بغیر اعلان کیا ہے کہ جرمنی، ویانا میں ایٹمی معاہدے کی بحالی سے متعلق مذاکرات میں دوبارہ شامل ہونے کے لئے آمادہ ہے۔
ترجمان جرمن وزارت خارجہ راینا بروئل نے برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے وزرائے خارجہ کے بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ تین یورپی ملکوں کے جاری کردہ بیان کے باوجود بقول ان کے ویانا میں جاری مذاکرات کے بارے میں ایران کا رویہ معاون و مددگار نہیں ہے۔
یاد رہے کہ ایٹمی معاہدے کے رکن تین یورپی ملکوں جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے منگل کے روز ایک بیان میں بیس فیصد افزودہ میٹل یورینیم کی پیداوار کے سلسلے میں ایران کے فیصلے کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ ایران کا یہ اقدام، ایٹمی معاہدے کی بحالی سے متعلق ویانا مذاکرات کے نتیجے کو خطرے سے دوچار کر سکتا ہے۔
برطانیہ، جرمنی اور فرانس کے وزرائے خارجہ دومینک راب، ہائیکو ماس اور ژان ایو لے دریان نے اپنے مشترکہ بیان میں دعوی کیا ہے کہ میٹل یورینیم کی پیداوار کے سلسلے میں ایران کا اقدام ایٹمی معاہدے سے متعلق اس کے اپنے وعدوں کی خلاف ورزی ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ اس سے قبل اس سلسلے میں جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے ایٹمی معاہدے پر عمل درآمد کی صورتحال کی وضاحت کے لئے ویانا میں جاری مذاکرات کے بارے میں کہا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ آئندہ چند ہفتوں میں یہ مذاکرات نتیجے پر پہنچ جائیں گے۔
دریں اثنا بین اقوام متحدہ کے یورپی ہیڈ کوارٹر میں روسی نمائندے میخائل اولیانوف نے ویانا مذاکرات میں یورپی ملکوں کی توسیع پسندی پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ویانا مذاکرات کا مقصد ایٹمی معاہدے کو اس کی پہلی شکل میں بحال کرنا ہے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ بین الاقوامی ایٹمی معاہدے میں شامل یورپی ملکوں نے مئی دو ہزار اٹھارہ میں اس معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی کے بعد اپنے وعدوں پر عمل نہ کر کے ایٹمی معاہدے کو دشوار صورت حال دوچار کر دیا، جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران نے بھی یورپ کی وعدہ خلافیوں کے بعد اپنے رضاکارانہ جوہری وعدوں پر عمل سے پسپائی اختیار کرنا شروع کر دی۔
ایران نے تاکید کی ہے کہ تہران کے خلاف پابندیوں کے عملی طور پر خاتمے اور ایران کے اقتصادی مفادات پورے ہونے کی صورت میں وہ بھی اپنے ایٹمی وعدوں پر عمل کرنے کے لئے تیار ہے۔