ویانا مذاکرات کے حوالے سے مغرب شور و غل کے درپے، ایران اپنے موقف پر اٹل
ایران مخالف ظالمانہ امریکی پابندیوں کے خاتمے کے لیے جاری ویانا مذاکرات کا آٹھواں دور ایک مہینے سے جاری ہے اور اس درمیان ایران و چار جمع ایک گروپ کے رکن ملکوں کے اعلی مذاکرات کاروں نے ایک دوسرے سے ملاقات کی ہے۔
ہمارے نمائندے کے مطابق ایران کے مذاکرات کارِ اعلی سید علی باقری کنی نے پہلے ویانا میں یورپی یونین کے امور خارجہ کے ڈپٹی انچارج انریکے مورا سے ملاقات کی جس کے بعد انہوں نے چار جمع کے ایک گروپ کے رکن ملکوں، روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے نمائندہ وفود کے سربراہوں سے بھی تبادلہ خیال کیا۔
ویانا میں تعینات روس کے اعلی مذاکرات کار میخائیل اولیانوف نے ایران اور چار جمع ایک گروپ کی میٹنگ کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات قدم بہ قدم آگے بڑھ رہے ہیں اور ہم نے متعلقہ فریقوں سے کئی ایک سود مند ملاقاتیں کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فریقین نے اس میٹنگ میں اس اہم مسئلے پر بات چیت کی ہے جو ترجیحات میں سب سے اوپر ہے۔
روسی وفد کے سربراہ کا کہنا تھا کہ مذاکرات آگے بڑھ رہے ہیں اور بات چیت کا سلسلہ پیر کو بھی جاری رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم قدم بہ قدم آگے جا رہے ہیں۔
اگرچہ ویانا مذاکرات میں پیشرفت اور بات چیت آگے بڑھنے کی نشانیاں دکھائی دے رہی ہیں تاہم یورپی ممالک زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل کرنے کی غرض سے غیر متعلقہ باتوں کو اچھال کر ایک جانب ایران کو مذاکرات میں سست روی کا ذمہ دار ٹھہرانے اور دوسری جانب مذاکرات کے اندرونی حقائق کو الٹا دکھا کر، تہران پر دباؤ میں شدت پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
عبوری معاہدہ اور ایلٹی میٹم کا تعین، ایسے معاملات ہیں ، جن پر مغربی ملکوں کی جانب سے پچھلے کئی روز سے خاصا ہنگامہ کیا جا رہا ہے اور ظاہر ہے کہ اس کا مقصد ایران کے خلاف دباؤ بڑھانے اور رائے عامہ کو منحرف کرنے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔
امریکی ٹیلی ویژن این بی سی نے ہفتے کے روز ذرائع کے حوالے سے دعوی کیا ہے کہ ویانا مذاکرات کے تناظر میں، روس نے پچھلے ہفتے ایران کو عبوری ایٹمی معاہدے کی تجویز پیش کی ہے۔ امریکی چینل نے یہ بھی دعوی کیا کہ عبوری معاہدے میں، ایران کے ایٹمی پروگرام پر بعض بندشیں دوبارہ عائد کیے جانے کے بدلے، کچھ پابندیاں ہٹانے کی بات شامل ہے۔
یہ بات ایسے وقت میں کی جا رہی ہے جب ایران کے اعلی اختیاراتی وفد نے ویانا مذاکرات کے پہلے ہی دن واضح کر دیا تھا کہ بات چیت کا عمل دانشمندانہ اور منطقی ہونا چاہیے، دباؤ کے تحت ہونے والے مذاکرات ناکام رہیں گے اور ان کا الٹا نتیجہ برآمد ہوگا۔ ایران نے کہا تھا شرط یہی ہے کہ سبھی ظالمانہ پابندیاں ختم کی جائیں۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے کچھ دن پہلے یہ بات کھل کر کہی تھی کہ ہم نے پابندیوں کے خاتمے اور تہران کو پہنچنے والے نقصانات کے ازالے کی غرض سے جو مسودہ چارجمع ایک گروپ کو پیش کیا تھا، اس کی بنیاد پر مذاکرات کر رہے ہیں، لہذا کسی بھی قسم کے قدم بہ قدم یا عبوری معاہدے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
یورپ کی جانب سے عبوری معاہدے کے لیے شور مچانے کا ایک مقصد ایران کی ایٹمی صلاحتیوں کو محدود کرنا ہے۔ حالانکہ اپنی علمی اور تحقیقی کامیابیوں کو محفوظ رکھنا ہر طرح کے ممکنہ معاہدے کی اہم ترین ضرورت ہے اور تحقیق و ترقی کے حق کو ایران سے سلب نہیں کیا جا سکتا ۔