Apr ۰۴, ۲۰۲۲ ۱۴:۳۹ Asia/Tehran
  • سمجھوتہ جلد ہوسکتا ہے، ایران

اسلامی جمہوریہ ایران نے کہا ہے کہ سمجھوتہ بہت جلد ہوسکتا ہے اگر امریکہ اس بات کو سمجھ لے کہ تہران اپنی ریڈلائنوں کو ہرگز عبور نہیں کرے گا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے پیر کے روز نئے ایرانی سال میں پہلی بار  نامہ نگاروں کے ساتھ اپنی  ہفتے وار پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ امریکہ اگر چاہتا ہے کہ ویانا میں سمجھوتہ طے پا جائے تو اسے جلد اپنا سیاسی فیصلہ لینا ہوگا۔ انھوں نے امریکہ کی جانب سے نئی پابندیاں عائد کئے جانے  اور ویانا مذاکرات کے بارے میں کہا کہ امریکہ نے اس قسم کے متضاد اقدامات زیادہ انجام دیئے ہیں۔

امریکی وزارت خزانہ نے گذشتہ ہفتے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اپنے دشمنانہ اقدامات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے چند ایرانی شخصیات اور اداروں کے خلاف نئی پابندیاں لگانے کا اعلان کیا تھا۔

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان کے بقول ویانا میں جو کچھ بھی صورت حال بنی ہوئی ہے وہ امریکی رویے کی بنا پر ہے، امریکہ باقی بچے مسائل کو اپنے اندرون ملک مسائل سے جوڑنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ ایران اور ایرانی ہمیشہ انتظار نہیں کرسکتے۔

سعید خطیب زادہ نے یہ بھی کہا کہ قیدیوں کا مسئلہ بھی امریکی اقدامات پر منحصر ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا  کہ ایران کی جانب سے ایٹمی معاہدے کے اقتصادی فوائد حاصل کئے جانے کا مسئلہ ایٹمی معاہدے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس پر مبنی ہے اور جب تک ایران کے یہ مفادات حاصل نہیں ہوں گے ایران آگے نہیں بڑھے گا اور اپنی ریڈ لائنوں کو ہرگز عبور نہیں کرے گا۔

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ ایران نے یمن میں جنگ بندی کے نفاذ کا خیر مقدم کیا ہے اور وہ برسوں سے اس فائر بندی  کا منتظر رہا ہے۔ انہوں نے یمن میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کے بارے میں ایک نامہ نگار کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس خلاف ورزی کی ابھی تک یمن کی نیشنل سالویشن حکومت کی جانب سے تصدیق نہیں ہوئی ہے۔

سعید خطیب زادہ نےاقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ساتھ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کی ٹیلیفونی گفتگو کے بارے میں بھی کہا کہ یہ بات چیت بھی یمن کے بارے میں ہی ہوئی ہے۔ انہوں نے افغانستان میں عورتوں اور لڑکیوں پر  دباؤ اور ان کے حقوق کے بارے میں ایران کے موقف سے متعلق کہا کہ افغانستان کی موجودہ عبوری حکومت کو اپنی ذمہ داری کو سمجھنا ہو گا اور سب کو  کوشش کرنا ہوگی کہ افغانستان کا یہ مرحلہ پار ہو جائے۔

انھوں نے ایک بار پھر افغانستان میں ایک وسیع البنیاد عبوری حکومت کے قیام کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ ایران کی نظر میں افغان عوام کو ہی تمام معاملات میں ترجیح حاصل ہے۔

واضح رہے کہ امریکہ افغانستان پر بیس سالہ غاصبانہ قبضہ جمانے کے بعد اگست دو ہزار اکیس میں بری طرح سے ذلت و رسوائی کے ساتھ اس ملک سے باہر نکل گیا اور طالبان اقتدار میں آگئے، جبکہ علاقے اور دنیا کے ایک بااثر ملک کی حیثیت سے اسلامی جمہوریہ ایران افغانستان سمیت علاقے کے تمام بحرانوں کو مذاکرات اور سیاسی طریقے سے حل کئے جانے کی ضرورت پر ہمیشہ تاکید کرتا رہا ہے۔

ٹیگس