ایٹمی معاہدے میں پابندیوں کے خاتمے کی وضاحت نہیں ہوئی ہے، ایرانی وزیرخارجہ
ایران کے وزیر خارجہ نے پابندیوں کے خاتمے کے لئے مذاکرات کی تازہ ترین صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ ایٹمی معاہدے میں پایا جانے والا ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ وعدوں کو بیان کیا گیا ہے لیکن پابندیوں کے خاتمے کا طریقہ کار کیا ہوگا اس کی وضاحت نہیں کی گئی ہے
سحر نیوز/ ایران:اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا ہے کہ مذاکرات میں تہران کا اصل مقصد ایک اچھے مستحکم اور پائیدار سمجھوتے کا حصول ہے اور ایران اسی وقت ایٹمی معاہدے کے تحت اپنے تمام وعدوں پر عمل کرنا شروع کرے گا جب اسے مقابل فریق سے وعدوں پر عمل کرنے کی ضمانت فراہم کر دی جائے گی۔
انھوں نے کہا کہ ایران ہر طرح کے نقصان یا ہر قیمت پر ہر قسم کا سمجھوتہ نہیں کرے گا بلکہ ایران منطقی سمجھوتہ اور اپنے اقتصادی مفادات کی فراہمی اور ان کا تحفظ چاہتا ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ نے اسی طرح سے تہران سے واشنگٹن کی غیر منطقی اور نامعقول درخواستوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی واپسی کے بارے میں ہونے والے مذاکرات کے دوران امریکہ کی جانب سے اپنے، ان ساٹھ عناصر کے نام بلیک لسٹ سے نکالے جانے جیسے مطالبات کئے گئے جو ایران کی سپاہ قدس کے کمانڈر شہید کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کے قتل میں ملوث رہے ہیں جبکہ امریکہ کا یہ مطالبہ بالکل بے جا تھا اور یہ ایران کی ریڈ لائن ہے جس سے ہرگزعبور نہیں کیا جا سکتا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف پابندیوں کے خاتمے کے لئے مذاکرات میں ایران کی کوششوں سے پیشرفت ہوئی ہے تاہم مغربی ملکوں اور خاص طور سے امریکہ کی جوبائیڈن انتظامیہ کی جانب سے امریکہ کی سابق حکومت کی وعدہ خلافیوں اور ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی ناکام پالیسیوں کی تلافی کے لئے اقدامات عمل میں لانے کے لئے لیت و لعل سے بین الاقوامی ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی واپسی کے دعوے کے بارے میں نہ صرف شکوک شبہات پیدا ہوئے بلکہ مذاکرات کا عمل بھی طویل ہو گیا۔
وزیرخارجہ نے جنگ یوکرین کے بارے میں بھی کہا کہ روس یوکرین جنگ کے دوسرے ہی مہینے یوکرین نے ایران سے درخواست کی کہ وہ روس سے جنگ بندی کےلئے کہے
وزیرخارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ ایران جنگ بندی اور روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ مغربی ممالک اور خاص طور سے امریکہ یوکرین کو ہتھیار فراہم کر کے جنگ جاری رہنے کا باعث بنا ہوا ہے۔
واضح رہے کہ روسی سرحدوں کے قریب نیٹو کے اشتعال انگیز اقدامات کے بعد ماسکو نے یوکرین کے خلاف چوبیس فروری کو فوجی کاروائی شروع کی جبکہ یورپ و امریکہ کی جانب سے کشیدگی یا جنگ بند کرانے کے لئے نہ صرف کوئی اقدام نہیں کیا گیا بلکہ یوکرین کی فوجی مدد و حمایت کر کے ان ممالک نے جنگ کی آگ کے شعلے مزید بھڑکا دئے