ایران، چین روس تعلقات پر امریکہ کو لاحق تشویش میں مزید اضافہ
روس کے ساتھ لامتناہی دوستی سے متعلق چینی عہدیدار کے بیان، اور ایران روس تعلقات کے فروغ پر امریکہ نے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
سحر نیوز/ دنیا: امریکہ کی نائب وزیر خارجہ ونڈی شرمین نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ہمیں روس کے ساتھ لامتناہی دوستی سے متعلق چینی عہدیدار کے بیان کے علاوہ روس ایران تعلقات کے فروغ پر بھی گہری تشویش لاحق ہے۔
امریکہ کا خیال ہے کہ چین روس مشترکہ سربراہی بیان میں شامل لامتناہی دوستی کے عہد پر عمل درآمد کا اعلان کیا جاسکتا ہے جو واشنگٹن کے لیے تباہ کن نتائج کا حامل ہوگا۔
بروکلین انسٹی ٹیوٹ میں ایک سیمنیار سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ کی نائب وزیر خارجہ ونڈی شرمین کا کہنا تھا کہ چین کے حکام روس کے ساتھ لامتناہی شراکت داری کا عہد کر رہے ہیں جس پر ہمیں تحفظات ہیں۔ ہمیں اس شراکت داری اور چین کی جانب سے یوکرین پر روسی حملے کی حمایت، دونوں پر تشویش ہے۔
قابل ذکر ہے کہ روس اور چین کے صدور نے فروری دوہزار بائیس میں ہونے والی ملاقات کے مشترکہ بیان میں کہا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان دوستی لامتناہی ہے اور اس کی کوئی حد مقرر نہیں ہے ۔
اس بیان میں واضح کیا گیا تھا کہ دنیا اس وقت وسیع تبدیلیوں کا مشاہدہ کر رہی ہے جس میں عالمی حکمرانی اور عالمی نظام دونوں شامل ہیں۔
دو اہم بین الاقوامی طاقتوں کی حثیت سے روس اور چین نے حالیہ برسوں کے دوران باہمی تعاون نیز امریکی یونی پولرازم کے مقابلے میں متحدہ موقف اپنانے کی غرض سے بعض اہم اقدامات انجام دیئے ہیں اور ملٹی لیٹرلزم پر استوار نیا عالمی نظام قائم کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
چین اور روس کا خیال ہے کہ بین الاقوامی حالات اور تبدیلیاں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ دنیا ایک بار پھر ملٹی لیٹرازم یا کثیر القطبی نظام کی جانب پلٹ رہی ہے۔ حالانکہ امریکہ یونی پولرازم کو باقی رکھنے پر مصر ہے اور عالمی پولیس مین کے طور پر اپنے ناجائز اہداف و مقاصد کے حصول کی غرض سے خود سرانہ اقدامات انجام دے رہا ہے۔
دوسری بات جس پر سینیئر امریکی عہدیدار ونڈی شرمین نے گہری تشویش ظاہر کی ہے وہ روس کے ساتھ ایران کے بڑھتے ہوئے تعلقات کا معاملہ ہے۔
امریکہ جو اس سے پہلے ایران اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات سے پریشان تھا ان دنوں ایران اور روس کے درمیان تعلقات سے سخت نالاں ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان عسکری اور دفاعی تعلقات کے فروغ، خاص طور سے ڈرون ٹیکنالوجی کی منتقلی کے دعوے کر رہا ہے۔
ماسکو، بیجنگ اور تہران کی قربت کے حوالے سے امریکہ کی تشویش پوری طرح قابل فہم ہے کیونکہ امریکہ، دو بڑی طاقتوں روس اور چین کو اکیسویں صدی کا خطرہ سمجھتا ہے اور ان کی طاقت کو محدود کرنا چاہتا ہے جبکہ ایران کو مغربی ایشیا میں اپنی پالیسیوں اور اتحادیوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج قرار دیتا ہے۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ ایران، روس اور چین دنیا پر امریکہ اور مغرب کی بالادستی کے مقابلے میں مشترکہ سوچ کے حامل اور دنیا میں کثیر القطبی نظام کے خواہاں ہیں ۔ ایک ایسا عالمی نظام جس میں مغرب اور خاص طور سے امریکہ کو اپنی مرضی اور منشا دیگر ممالک پر زبردستی تھوپنے کی اجازت نہ ہو۔ان عوامل کے پیش نظر روس، چین اور ایران کے ساتھ امریکہ کی دشمنی میں اضافے کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔