حق وہ جس کا دشمن بھی اعتراف کرے
ٹرمپ صدام بن کر غلطی نہ کریں، ایران بہت مضبوط ملک ، امریکی جریدہ
امریکی ميگزین د ہل کی وب سائٹ پر ایک مقالہ شائع ہوا ہے جس کے کچھ حصے پیش کئے جا رہے ہيں۔
سحرنیوز/ایران:امریکی میگزین د ہل نے لکھا ہے : شدت پسندوں کے دعووں کے برعکس ایران تباہی کے دہانے پر کھڑا ملک نہیں ہے بلکہ بیرونی خطرات کے خلاف متحد ہونے کی صلاحیت رکھنے والا ایک مضبوط ملک ہے۔ ماضی کی غلطیوں سے بچنے کے لیے، امریکہ کو تصادم کے بجائے بات چیت اور حقیقت پسندانہ روش کے ساتھ معاملات طے کرنے چاہیے۔ ایران کے ساتھ محاذ آرائی کے بجائے سفارت کاری کی مدد سے تعاون نہ صرف دانشمندانہ قدم ہے بلکہ یہ علاقائی استحکام کے لیے بھی ضروری ہے۔
امریکی میگزین ہل نے "ٹرمپ صدام کی غلطی نہ دہرائیں؛ ایران پر حملہ کرنے سے گریز کریں" کے عنوان سے ایک رپورٹ میں لکھا ہے: 26 اپریل کو ایران کے بندر عباس شہر کی بندرگاہ میں ایک تباہ کن دھماکہ ہوا جس میں 57 افراد مارے گئے اور 1200 سے زائد زخمی ہوئے۔ اس واقعے کی ہر زاویہ سے تحقیقات جاری ہیں تاہم اس تباہی کے درمیان، ایرانی عوام کے ردعمل نے امریکی پالیسی سازوں کو ایک اہم سبق دیا ہے۔
بحران کے وقت متحد ہونے کی ایران کی صلاحیت کو کم نہیں سمجھا جانا چاہیے، جیسا کہ صدام حسین نےکئ دہائیوں پہلے غلطی کی تھی۔
اقتصادی مشکلات اور سیاسی عدم اطمینان کے باوجود بندر عباس دھماکے کے بعد ایرانی عوام متحد ہو گئے۔ ملک بھر میں لوگ متاثرین کے لیے خون کا عطیہ دینے کے لیے قطاروں میں کھڑے ہوئے۔ بوشہر میں ایک مقامی میوزک فیسٹیول کو ہمدردی اور سوگ کی تقریب میں تبدیل کر دیا گیا اور منتظمین نے سانحے کی وجہ سے میلے کو جلد ختم کر دیا۔ ملک بھر میں ڈاکٹروں اور ماہرین نفسیات نے رضاکارانہ طور پر زخمیوں اور متاثر ہونے والوں کی مدد کی، جب کہ گاڑیاں بنانے والوں نے تباہ شدہ کاروں کی مفت مرمت کی اور دوسروں نے گھروں کی ٹوٹی ہوئی کھڑکیوں کو ٹھیک کرنے کے لیے شیشے بھیجے۔
مختلف شکایتوں سے قطع نظر، ایرانی عوام، غیر ملکی جارحیت یا سانحوں کے دوران قومی ہم آہنگی کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایرانی قوم کی اس خصوصیت نے ایرانی حکومت کے مخالف اور مغربی تجزیہ کاروں کے اس خیال کو چیلنج کیا ہے کہ عوام اور حکومت کے درمیان اتحاد نہيں ہے اور اس کی وجہ سے ایران کمزور ہو چکا ہے اور ان حالات میں ایرانی عوام ، غیر ملکی مداخلت کا استقتبال کریں گے! بندر عباس میں دھماکے بعد کے حالات اس طرح کے تمام خیالات کو غلط ثابت کرتے ہيں

امریکی جریدے کی اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے: "بندر عباس میں جس اتحاد کا مظاہرہ کیا گيا وہ ایران-عراق جنگ کے دوران عوامی ردعمل کی یاد دلاتا ہے، ایک ایسی تاریخی مثال ہے جو ایران پر حملے کی وکالت کرنے والوں کے لئے ایک سخت انتباہ سے کم نہيں ہے۔ ۔ ستمبر 1980 میں صدام حسین نے ایک جارحانہ کارروائی شروع کی، اس یقین کے ساتھ کہ ایران انقلاب کی وجہ سے کمزور ہو گیا ہے ، صدام کی غلط فہمی در اصل ایران کے انقلاب مخالف گروہوں اور کچھ دوسری قوتوں سے متاثر تھی جنہوں نے دعوی کیا تھا کہ ایرانی اپنے ملک کے دفاع کے لیے بہت زیادہ پر عزم نہيں ہیں۔
لیکن ایرانیوں نے، جن میں انقلابی ملیشیا اور عوامی رضاکار شامل تھے، ایک ساتھ مل کر عراقی حملے کو پسپا کر دیا۔ 1982 تک، ایران نے اپنا کھویا ہوا تقریبا سارا علاقہ دوبارہ حاصل کر لیا تھا، اور جنگ آٹھ سال تک چلتی رہی جس میں دس لاکھ سے زیادہ جانیں گئیں۔ صدام کی اس غلطی کی وجہ ایرانی عوام کے بارے میں معلومات کی کمی اور بیرونی جارحیت کے وقت ایرانی عوام کے اتحاد کی صلاحیت سے عدم آگاہی کا نتیجہ تھی اور آج بھی حالات کچھ مختلف نہيں ہیں ۔

آج بھی کچھ ایرانی اپوزیشن گروپس اور مغربی شدت پسند صدام کے غلط مفروضوں سے ملتے جلتے بیانیہ کو فروغ دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی بے اطمینانی نے ایران کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ یہ گروپ عدم اطمینان کو ایک موقع کے طور پر دیکھتے ہیں اور یہ مشورہ دے رہے ہيں کہ غیر ملکی مداخلت، چاہے فوجی کارروائی کے ذریعے ہو یا خفیہ کارروائیوں کے ذریعے، ایرانی حکومت کے خلاف عوامی بغاوت کو جنم دے سکتی ہے۔
تاہم، تاریخی اور عصری شواہد اس نظریے کی تردید کرتے ہیں۔ ایران-عراق جنگ کے دوران، اندرونی اختلافات متحدہ دفاع کو نہیں روک سکے ۔ اسی طرح بندر عباس سانحے کے بعد ایران میں قومی یک جہتی کے مناظر نظر آئے اور حکومتی اداروں کی جانب سے بدانتظامی کے بارے میں قیاس آرائیوں کے باوجود، عوامی ردعمل حکومت پر الزام لگانے کے بجائے متاثرین کی حمایت پر مرکوز رہا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ممکنہ طور پر غیر ملکی حملہ ایرانیوں کو مشترکہ دشمن کے خلاف متحد کرکے حکومت کی پوزیشن کو مضبوط کر سکتا ہے۔

امریکی جریدہ زور دیتا ہے: ایرانیوں کے اس اتحاد کو غلط سمجھنے کے اسٹریٹجک خطرات بہت زيادہ ہیں۔ آج کا ایران 1980 کا الگ تھلگ پڑ جانے والا ملک نہیں ہے ۔ آج کے ایران نے نسبتا ترقی یافتہ فوجی اور میزائل پروگرام تیار کیا ہے اور مشرق وسطی میں وہ اپنے اتحادیوں کے نیٹ ورک کے ذریعے کافی اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ فوجی مداخلت ایک وسیع علاقائی تنازعہ کا باعث بن سکتی ہے اور اس تنازعہ میں ایسے فریق بھی شامل ہو جائيں گے جو مشرق وسطی میں امریکی مفادات کے تحفظ کو مزید پیچیدہ کر دیں گے۔
مغربی پالیسی سازوں کو ایسی پالیسیوں پر عمل کرنے کے بجائے جو ایران کی کمزوری کے دعوے کرتی ہیں، سفارت کاری کو ترجیح دینی چاہیے اور ایران کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے جوہری پھیلاؤ اور علاقائی استحکام جیسے باہمی خدشات کو دور کرنا چاہیے۔ جارحانہ اقدامات مذاکرات کو پٹڑی سے اتار سکتے ہیں اور ایران کے جوہری پروگرام سے نمٹنے اور امریکہ ایران تعلقات کو بہتر بنانے کی سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ایک فوجی غلطی نہ صرف ایران میں حکومت کی تبدیلی کا باعث نہيں بنے گی بلکہ امریکہ کو دور رس انجام کے ساتھ ایک طویل تصادم کا خطرہ بھی مول لینا پڑے گا۔
رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے: ایران، سخت گیر دعووں کے برعکس، تباہی کے دہانے پر کھڑا ملک نہیں ہے بلکہ بیرونی خطرات کے خلاف متحد ہونے کی صلاحیت رکھنے والا ایک ملک ہے۔
(نوٹ: یہ مقالہ نقل قول ہے اور وب سائٹ کا اتفاق ضروری نہيں)