جوہری پروگرام کے اہداف ہمیشہ پرامن رہے ہیں، ایرانی وزیر خارجہ
سید عباس عراقچی نے کہا کہ جوہری پروگرام کے سلسلے میں ایران نے ثابت کر دیا ہے کہ ہمارا مؤقف پرامن ہے، اور یہ راستہ رہبر معظم کے فتویٰ پر استوار ہے—اس کے لیے ہم نے ہر موقع پر شفافیت دکھائی ہے
سحرنیوز/ایران: ملکی علاقائی اور عالمی سطح پر حساس صورتحال کے دوران ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے تہران میں مقیم غیر ملکی سفیروں اور بین الاقوامی مشنز کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے مختلف اہم موضوعات کے سلسلے میں انہیں تہران کے موقف سے آگاہ کیا ہے۔
سید عباس عراقچی نے ملاقات کے آغاز میں ایران پر صیہونی جارحیت اور اس کی جوہری تنصیبات پر حملوں کی مذمت کرنے، اسکے ساتھ ہمدردی و تعزیت کا اظہار والے ممالک کی قدردانی کی اور کہاکہ بعض ممالک نے اس جارحیت اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی کی مذمت کرنے سے گریز کیا جو کہ افسوسناک ہے۔ وزیر خارجہ ایران نے کہا کہ بہت سی بین الاقوامی تنظیموں منجملہ ناوابستہ تحریک، اسلامی تعاون تنظیم، خلیج فارس تعاون کونسل، برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم کے علاوہ ایک سو بیس سے زائد ممالک نے ان حملوں کی مذمت کی، ہمیں امید تھی کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل امن و سلامتی کی ضامن ہونے کے ناطے ان حملوں کی مذمت کرے گی لیکن امریکہ اور دیگر ارکان کی مخالفت کی وجہ سے ایسا نہیں ہو سکا۔
سید عباس عراقچی نے مزید کہا کہ ہمیں افسوس ہے کہ جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی اور اس کے ڈائریکٹر جنرل نے ایران پر ہوئے حملوں کی مذمت نہیں کی، حقیقت یہ ہے کہ ان حملوں میں ایرانی تنصیبات کو شدید نقصان پہنچا، لیکن اس سے کہیں زیادہ یہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے اور بین الاقوامی قوانین اور ضابطوں کی خلاف ورزی تھی اور اس پر حملہ کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ فی الوقت آئی اے ای اے کے ساتھ ہمارا تعاون بند نہیں ہوا ہے مگر صورتحال میں تبدیلیوں کی وجہ سے اب پارلیمنٹ کے منظور کردہ قانون کے مطابق ہی ایجنسی کے ساتھ تعاون کیا جائے گا اور وہ بھی ایران کی اعلیٰ سلامتی کونسل کی نگرانی میں ہوگا، اور ایجنسی کی تمام درخواستوں کا ایران کے مفادات کی بنیاد پر جائزہ لیا جائے گا اور ان کا جواب دیا جائے گا۔
ایران کے وزیر خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ ایران گزشتہ دو دہائیوں سے فکرمند ممالک کو یہ اطمینان دلانے کی کوشش کر رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن ہے، اسے ثابت کرنے کے لئے ہم نے سبھی راستے اپنا لئے اور بتایا کہ یہ پروگرام سپریم لیڈر کے فتوے کی بنیاد پر پرامن ہے اور رہے گا، اگر ہم جوہری ہتھیاروں کی طرف بڑھنے کا ارادہ رکھتے تو ہم پہلے ہی اقدام کر چکے ہوتے، یا شاید اب ہمارے پاس اس سمت آگے بڑھنے کا بہتیرن بہانہ تھا، مگر ہم اپنے اسلامی اصولوں اور عقیدوں کے بدستور پابند ہیں صرف یہی ایٹمی اسلحے تک رسائی کی راہ میں آگے بڑھنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ ہم جوہری ہتھیاروں کو نہ صرف غیر انسانی سمجھتے ہیں بلکہ اسلامی نقطہ نظر سے بھی اُسے ناقابل قبول مانتے ہیں اور اس نقطہ نظر کا اظہار رہبر انقلاب اسلامی کے فتوے میں واضح طور پر کیا گیا ہے۔
عباس عراقچی نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے موضوع پر کہا اگر امریکہ یا دیگر ممالک کی طرف سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے تو سب سے پہلے اس بات کی سنجیدہ ضمانت دی جانی چاہیے کہ اس طرح کے اقدامات دوبارہ دہرائے نہیں جائیں گے، ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے نے مذاکراتی حل کے حصول کو مزید مشکل اور پیچیدہ بنا دیا ہے۔ انہوں نے دوٹوک لفظوں میں کہا کہ شرائط فراہم ہونے کی صورت میں اگر مذاکرات ہوتے بھی ہیں تو ملک کی عسکری دفاعی توانائی اور یورینیئم افزودگی کے خاتمے جیسے مسائل پر کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔