اسلامی انقلاب کے اثرات
ایک دانشور اور تجزیہ نگار امیر بائر ہیں ۔ انہوں نے بھی ایران کے اسلامی انقلاب کا جائزہ لیا ہے۔
ان کا اور جیفری گڈوین دونوں کا کہنا ہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب آنے میں شیعہ مذہب نے ایک موثر عنصر و طاقت کی حیثیت سے کردار ادا کیا ۔ اسی طرح دونوں دانشوروں کا خیال ہے کہ ایران میں اسلامی انقلاب آنے کے بعد روز بروز اس کے ثقافتی عناصر اور نتائج میں اضافہ ہوتا گیا ۔
امیر بائر اور جیفری گڈوین دونوں کا خیال ہے کہ انقلاب میں ثقافتی اور نفسیاتی وغیرہ عناصر کو مد نظر رکھا جانا جاہئے۔ اسی طرح دونوں افراد تاکید کرتے ہیں کہ یہ ان کا نظریہ نہیں ہے بلکہ ایک وسیع حکمت عملی ہے ۔
امیر اور جیفری گڈوین کے نظریات اس بات کی علامت ہیں کہ ایران میں اسلامی انقلاب ثقافتی اثرات نے اہم اور گہرے کردار ادا کئے ہیں ۔ گڈوین کا کہنا ہے کہ انقلابات کے مطالعے میں حکومتوں کے عقائدے اور اس کے ثقافتی پہلوؤں پر بھی سنجیدگی سے توجہ دی جانی چاہئے ۔ گڈوین کا خیال ہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ڈھانچہ، عوام اور حکام، ایک دوسرے پر اثرات مرتب کر رہے ہیں ۔
گڈوین نے 1993 میں جان فیورن کے ساتھ ایک مقالہ لکھا تھا جس میں ایران کے اسلامی انقلاب اور نکاراگوئے کے انقلاب کے نتائج کا جائزہ پیش کیا تھا ۔ در حقیقت جیفری گڈوین کے مطالعے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے مصطفی امیر بائر اور جان فیورن جیسے ان دانشوروں کے ساتھ مل کر ایران کے اسلامی انقلاب کے بارے میں تحقیقات کی جنہیں کسی حد تک ایک بات کی معلومات تھی کہ ایران میں اسلامی انقلاب کیسے وجود میں آیا تھا۔