انقلاب اسلامی اور امام خمینی کی قیادت
مغربی محقق اور دانشور ڈاکٹر مائیکل فشر جواز پیش کرتے ہیں کہ اکتوبر 1977 سے فروری 1979 تک ایرانی عوام کے اجتماعی اقدامات قومی سطح پر ایک عظیم اخلاقی مظاہرے میں تبدیل ہو گئے اور ان اقدامات کا عروج حضرت امام حسین علیہ السلام کے چہلم میں نظر آیا ۔
شیعہ حضرات کا عقیدہ ہے کہ شہید مرتا نہیں ہے، وہ زندہ ہوتا ہے اور اپنے خالق کی بارگاہ سے رزق حاصل کرتا رہتا ہے ۔ اس لئے انقلابی تنظیمیں دو عناصر کے الحاق سے وجود میں آئیں ۔ ایک معروف بیوفائی کی سماجی سطح پر مذمت کے بارے میں مراجع کرام کی جانب سے پیش کی گئیں تعلیمات اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی مجالس عزا کی کارآمدگی ۔ انقلاب اس لئے آیا کیونکہ عام افراد اپنی زندگی کو بہتر کرنا اور اپنے سماج میں یکجہتی کو جاری رکھنا چاہتے تھے ۔
مائکل فشر اسلامی انقلاب کے جائزے میں امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی قیادت کو خاص اہمیت دیتے ہیں ۔ وہ اپنی کتاب " ایران : مذہبی اختلافات سے اسلامی انقلاب تک" میں امام خمینی کے بارے میں متعدد پہلوؤں پر اپنے نظریات پیش کرتے ہیں ۔ امام خمینی کی قیادت میکس ویبر کے مد نظر کرشمائی قیادت سے پوری طرح جدا ہے ۔ امام خمینی کی قیادت کو اس فریم ورک کی شناخت کی ضرورت ہے جسے ملا صدرا نے رہنما کے معنوی مراحل لئے پیش کیا ہے۔
ملا صدا کی نظر میں عوام کے ساتھ رہنما کے تعلقات کو اس سے ہونے والے فائدے کی بنیاد پر دیکھا جانا چاہئے ۔ یعنی وہ روشنی جو عالم وجود کے حقائق کو واضح کرے نہ کہ جذبات کی بنیاد پر جو عوام کے دل میں اپنے رہبر و رہنما کے لئے پیدا ہوتے ہیں ۔
ایران کے اسلامی انقلاب کے رہنما کے لئے انقلاب صرف سیاسی اور اقتصادی امور کی وجہ سے نہیں بلکہ اخلاقی تبدیلی لانے والا تھا جو حکومت اور معاشرے کے سلوک کے رجحان کو تبدیل کرتا ہے۔