شام میں فائر بندی کے نفاذ پر مفاہمت ہوگئی
شام کی مسلح افواج کمیٹی نے اعلان کیا ہے کہ شام میں جنگی اقدامات روکنے اور فائر بندی کے نفاذ کے بارے میں مفاہمت ہو گئی ہے۔
شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی سانا کی رپورٹ کے مطابق شام کی مسلح افواج کمیٹی نے جمعرات کے روز ایک بیان میں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ تیس دسمبر کی آدھی رات سے فوجی اقدامات روک دیئے جائیں گے، تاکید کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ داعش اور جبہۃ النصرہ اور ان سے وابستہ تمام دہشت گرد گروہ فائر بندی کے عمل سے مستثنی ہیں اور ان کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں گی۔ شام کی آرمی کمیٹی نے اعلان کیا ہے کہ فائر بندی کا مقصد بحران شام کے حل کے لئے سیاسی طریقے کی حمایت کرنا ہے۔
دوسری جانب روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے اعلان کیا ہے کہ شام میں فائر بندی کے بارے میں مفاہمت ہو گئی ہے اور امن مذاکرات کے لئے آمادگی پائی جاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ شام کے حکومت مخالف نمائندوں اور حکومت شام کے درمیان فائر بندی کے بارے میں اتفاق رائے ہو گیا ہے اور روس، شام میں فائر بندی کی دستاویز پر دستخط کر دے گا۔
دریں اثنا قصر کرملین نے اعلان کیا ہے کہ روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی اور یونان کے وزیر اعظم الیکسیس سپراس سے ٹیلیفون پر مختلف مسائل منجملہ شام کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ موصولہ رپورٹ کے مطابق قصر کرملین نے اعلان کیا ہے کہ روس کے صدر ولادیمیر پوتن اور مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے، جو شام کے بارے میں قریبی مواقف رکھتے ہیں، شام اور لیبیا کی تبدیلیوں کے بارے میں گفتگو کی۔
سعودی عرب اور خلیج فارس تعاون کونسل کے بیشتر رکن ملکوں کے برخلاف مصر کا خیال ہے کہ شام کا بحران سیاسی طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے۔
قصر کرملین کے اعلان کے مطابق روس کے صدر نے یونان کے وزیر اعظم سے بھی شام کے مسائل کے بارے میں گفتگو کی۔
اس گفتگو میں فریقین نے تشدد و جارحیت کا راستہ ترک کر کے بحران شام کو شامی فریقوں کے درمیان سیاسی مذاکرات کے ذریعے حل کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔