Sep ۰۸, ۲۰۱۷ ۱۴:۴۳ Asia/Tehran
  • میانمار کے مسلمانوں کا ایک اور گاؤں نذر آتش

میانمار میں مسلمانوں پر فوج اور انتہا پسند بودھسٹوں کے وحشیانہ حملوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

خبروں کے مطابق تازہ واقعے میں انتہا پسند بودھسٹوں نے میانمار کی فوج اور سیکورٹی فورس کی مدد سے میانمار کے مسلمانوں کے ایک اورگاؤں کو آگ لگادی ہے۔

انتہا پسند بودھسٹوں نے مسلمانوں کے ایک اور گاؤں پر حملہ کرکے دسیوں مکانات کو آگ لگادی اور اس گاؤں کے مسلمان  اپنی جان بچاکر محفوظ مقامات کی جانب فرار کرگئے ہیں۔

اقوام متحدہ کی جانب سے اعلان کردہ اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ پچیس اگست سے اب تک میانمارکی فوج اور انتہا پسند بودھسٹوں کے حملوں میں چھے ہزار تین سو سے زائد مسلمان جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ ان کے دسیوں گاؤں کے سیکڑوں  مکانات کو آگ لگادی گئی ہے۔

میانمار کی حکومت نے اقوام متحدہ کے مبصرین کو اب تک صوبہ راخین کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دی ہے جہاں مسلمانوں کا وسیع پیمانے پر قتل عام کیا جارہا ہے۔

صوبہ راخین میں مسلمانوں کے قتل عام کی لی گئی بہت ہی معمولی سی تصویریں دیکھنے سے ہر بیدار ضمیر انسان کے ذہن میں یہ بات گردش کرنے لگتی ہے کہ یہ تو انسانیت کے خلاف کھلے عام جرائم کا ارتکاب اور روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے۔

میانمار کے صوبہ راخین میں مسلمانوں کو زندہ جلادینا، ان کے سر قلم کردینا اور ان کی خواتین کی عصمت دری  کسی بھی دین و مذہب میں جائز نہیں ہے اور اس درمیان عالمی برادری، میانمار کے ہمسایہ ملکوں اقوام متحدہ اور سب سے بڑھ کر اسلامی تعاون تنظیم کے کمزور موقف سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسانیت اب دم توڑ رہی ہے ۔

اس صورتحال میں میانمار کی فوج موقع سے فائدہ اٹھاکر مسلمانوں کا وسیع پیمانے پر قتل عام کررہی ہے اور ساتھ ہی میانمار کی سیاسی لیڈر اور امن کا نوبل انعام پانے والی آنگ سان سوچی نے بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کررکھی ہے۔

عالمی برادری اور اداروں کے اس قسم کے کمزور موقف کے پیش نظر اب انسانی حقوق کی مدافع تنطیموں سے توقعات بڑھ گئی ہیں کہ مستقبل میں امن کا نوبل انعام کسی کو دیتے وقت زیادہ دقت اور غوروفکرکریں کہ جس کو یہ انعام دیا جارہا ہے وہ اس کا اہل ہے کہ نہیں ؟ ایک ایسی فرد کی نگاہوں کے سامنے میانمار کے مسلمانوں کا بہیمانہ قتل عام جو انسانی حقوق کی دعویدار بنتی ہیں اور اس سے ایک بار پھر یہ ثابت کردیتا ہے کہ انسانی حقوق کا معاملہ اب ایک حربے میں تبدیل ہوچکا ہے۔

میانمار کے مسلمانوں پر جو مظالم  ڈھائے جارہے ہیں ان سے کسی بھی صورت میں چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔ اس  لئےاقوام متحدہ اور خاص طور پر او آئی سی کو اپنی توانائی بروئے کار لاتے ہوئے فوری طور پر حرکت میں آنا اور میانمار کی مسلم اقلیت کا دفاع کرنا چاہئے جو اس ملک میں صدیوں سے آباد ہیں۔