بن سلمان کی پالیسیاں اور ملک کی تباہی + مقالہ
سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیاں اختیار کر رہے ہیں وہ ایسی ہیں کہ ان کے بارے میں کوئی کچھ بھی اندازہ نہیں لگا سکتا۔
اس وقت ضروری ہے کہ سعودی عرب کے اتحادی ممالک انہیں سمجھائیں اور ان کے ہاتھوں سے سعودی عرب کی تباہی و بربادی کو روکیں۔ اگر اتحادی ممالک ایسا نہ کر بائیں تو انہیں چاہئے کہ سعودی عرب کو اسلحوں کی فروخت روک دیں۔
بن سلمان اپنی پالیسیوں کی وجہ سے عوام سے بہت دور ہوتے جا رہے ہیں اور سرمایہ گزار وہاں سے باہر نکل رہے ہیں اور اتحادی ممالک سے تعلقات کشیدہ ہو رہے ہیں۔ اس حوالے سے سامنے کی مثال کینیڈا کی ہے جس کے بارے میں سعودی عرب نے اچانک سخت اقدامات کئے۔
بن سلمان کے غصے سے کینیڈا کو کچھ خاص نقصان نہیں ہوا البتہ اس کا نقصان سعودی عرب میں زیر تعلیم سعودی طلبہ اور وہاں علاج و معالجے کے لئے سعودی مریضوں کو اٹھانا پڑا جبکہ ملک کی ساکھ کو بھی کاری ضرب لگی ہے۔
سرمایہ گزار اس چیز کو اولویت دیتے ہیں کہ جس ملک میں سرمایہ گزاری کرنے جا رہے ہیں وہاں کی حکومت کی پالیسیاں اور فیصلے ان کے اندازوں کے مطابق ہوں تاہم بن سلمان جو کچھ کر رہے ہیں وہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ کینیڈا کے سلسلے میں سعودی حکومت نے جو کچھ کیا یا اس سے پہلے قطر کے بارے میں ریاض حکومت نے جو رویہ اختیار کیا اس سے علاقے میں تجارت میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں ۔
سعودی عرب میں جس طرح امیر اور تاجر شہزادوں کو گرفتار کیا گیا اس سے تو یہی پیغام دیا گیا کہ سب کچھ سعودی ولیعہد کی من مانی ہو رہی ہے۔ بن سلمان نے خواتین کو ڈارائیونگ کی اجازت دلانے کے لئے جن خواتین نے مہم شروع کی تھی انہیں گرفتار کروا لیا ۔ حکومت ریاض نے لبنان کے وزیر اعظم سعد الحریری کو ریاض بلا کر انہیں گرفتار کر لیا، اسی طرح وہ یمن میں جنگ شروع کئے ہوئے ہے، اس سے سعودی عرب کے اقتصاد کو جو نقصان پہنچا وہ اپنی جگہ اس سے سعودی عرب کے اتحادیوں جیسے برطانیہ اور امریکا پر شدید سوال اٹھنے لگے ہیں جو سعودی عرب کو ہتھیار سپلائی کر رہے ہیں۔
سعودی عرب کے اندر سیاسی اور میڈیا حلقوں میں سے کسی کے پاس بھی اتنی جرات نہیں ہے کہ وہ ولیعہد کو ٹوک سکیں کہ وہ غلطی کر رہے ہیں اس لئے غیر ملکی اتحادیوں کو چاہئے کہ وہ بولیں لیکن انہوں نے سکوت اختیار کر رکھا ہے، یہ خاموشی بہت بڑی غلطی ہے۔
حالیہ دنوں میں مغربی ممالک کے میڈیا میں سعودی عرب کے حالات کے سلسلے میں شدید تنقیدیں کی گئی جبکہ اس وقت تو محمد بن سلمان کو شک کی نظر سے دیکھا گیا جب بن سلمان نے ولیعہد محمد بن نائف کو سبکدوش کرکے ولیعہد کا عہدے پر قبضہ کر لیا تھا۔
گارڈین اخبار نے گزشتہ 13 اگست کے اپنے مقالے میں مغربی میڈیا کو مشورہ دیا تھا کہ وہ سعودی عرب کے بارے میں اپنے رجحان پر نظر ثانی کرے اور اپنے اس موقف کو تبدیل کرے کہ محمد بن سلمان ایک لبرل رہنما ہیں جو سعودی عرب کو بالکل مختلف جہت کی جانب لے جا رہے ہیں۔
بن سلمان کی پالیسیوں سے ان کی حقیقیت سامنے آ گئی ہے۔ انہوں نے کینیڈا کے ساتھ تعلقات صرف اس بات پر منقطع کر لیا کہ کینیڈا نے سعودی عرب کی سوشل کارکن کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ مشرق وسطی کے امور کے ماہر اسٹیفن کک نے اپنے مقالے میں لکھا کہ سعودی عرب نے اس کشیدگی کے لئے غلط ملک کا انتخاب کر لیا۔
بشکریہ
اکنامسٹ