سرکوبی کے بادشاہ سے ملئے !!!!+ مقالہ
برطانوی میگزین آبزرور نے مقالہ نگار کنعان مالک کا ایک مقالہ شائع کیا ہے جس میں مقالہ نگار کا کہنا ہے کہ دھوکے میں نہ رہیئے، ہمارے سعودی اتحادی سرکوبی کے بادشاہ ہیں۔
سعودی عرب کے اندر جس طرح سماجی کارکنوں کی سرکوبی کی جا رہی ہے اور محمد بن سلمان کی قیادت میں جس طرح سعودی عرب نے یمن پر جنگ مسلط کی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ اصلاح کی باتیں صرف ایک دکھاوا ہے۔
مقالہ نگار مزید لکھتے ہیں کہ سعودی عرب میں سیاسی اور سماجی کارکنوں کو سزائے موت تک دی جا رہی ہے جبکہ ان کا جرم بس یہ ہے کہ انہوں نے پرامن مظاہروں میں شرکت کی اور حکومت کے خلاف نعرے لگا دیئے نیز مظاہروں کا ویڈیو بنا کر اسے سوشل میڈیا پر ڈال دیا۔
ان کارکنوں میں اسراء الغمغام بھی شامل ہیں جو انسانی حقوق کے شعبے میں مصروف عمل رہی ہیں۔ یہ کارکن مشرقی علاقوں کے رہائیشی ہیں جو شیعہ اکثریتی علاقہ ہے۔ ان افراد کو دو سال سے زیادہ وقت سے جیل میں رکھا گیا ہے اور سرکاری وکیل انہیں سزائے موت دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
آبزرور کا کہنا ہے کہ ان کارکنوں کی مشکلات دیکھ کر صاف واضح ہوتا ہے کہ یہ دعوے پوری طرح سے کھوکھلے ہیں کہ سعودی عرب میں آزادی آ گئی ہے۔ مغرب میں اطلاعات کا سیلاب آ گیا کہ سعودی عرب میں اصلاحات ہو رہی ہیں اور خاص طور پر 2030 وجن کے تحت تبدیلی کی جا رہی ہے جو ولیعہد محمد بن سلمان کا ملک گیر منصوبہ ہے۔
مقالہ نگار کا کہنا ہے کہ یہ بات صحیح ہے کہ بن سلمان نے خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دے دی ہے اور انہیں اسپورٹس میں شرکت کی اجازت بھی مل گئی ہے۔ یہی نہیں سینما بھی کھل گئے ہیں اور راک میوزک کا پروگرام بھی ہوا لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ سعودی عرب کے بادشاہ اب بھی قیدیوں کو ایذائیں دے رہے ہیں، کارکنوں کے سر قلم کر رہے ہیں اور ابنی تباہ کن پالیسیوں سے تباہی پھیلا رہے ہیں جس کی مثال کے طور پر جنگ یمن کو پیش کیا جا سکتا ہے۔
سعودی عرب نے گزشتہ سال درجنوں کارکنوں، مذہبی رہنماؤں، نامہ نگاروں اور علماء دین کو گرفتار کیا ہے۔ ان گرفتاریوں کے بارے میں اقوام متحدہ نے بھی کہا ہے کہ وسیع اور منظم طریقے سے کی جانے والی یہ گرفتاریاں، تشویش کا باعث ہیں۔
مقالہ نگار کا کہنا ہے کہ حال ہی میں سعودی عرب نے اپنے جنگی طیاروں سے مسافر بس پر حملہ کر دیا جس میں درجنوں اسکولی بچے شہید اور زخمی ہوگئے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی توسیع میں سعودی عرب سب سے زیادہ ملوث ہے۔
1970 کے عشرے سے ہی سعودی عرب وہابی نظریات کی وسیع پیمانے پر تبلیغ کر رہا ہے۔ اس نے مدارس اور مساجد کو فنڈ دیا نیز افغانستان سے لے کر شام تک اس نے انتہا پسند تنظیموں کو مال و اسباب فراہم کئے۔ دہشت گرد تنظیم القاعدہ کا سرغنہ اسامہ بن لادن بھی سعودی شہری تھا اور 11 ستمبر کے حملوں میں ملوث زیادہ تر حملہ آور بھی سعودی شہری تھے۔ 2009 میں امریکی حکومت نے ایک میمورینڈم جاری کیا تھا جس میں سعودی عرب کے بارے میں لکھا تھا کہ دنیا کے متعدد علاقوں میں سرگرم وہابی دہشت گردوں کا مالی منبع سعودی عرب ہی ہے اور سعودیوں نے اس تنظیموں کی مدد سے مغرب میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کی ہے۔
سعودی عرب کے شدید جرائم پر مغربی رہنما صرف ہنس رہے ہیں جبکہ اس کی قیمت یمن کے بچے اور سعودی عرب کے کارکنوں کو اپنی جانیں دے کر ادا کرنی پڑ رہی ہے۔