دوست دوست نہ رہا، محمد بن سلمان کی ساتھیوں کے ساتھ خیانت + مقالہ
آج بہت کم افراد کو اس بات میں شک ہوگا کہ مخالف سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے ذمہ دار ایک گروہ کو قرار دیں تاکہ قتل کے اصل مجرم سے رای عامہ کی توجہ ہٹا دی جائے۔
سعودی عرب کے اٹارنی جنرل نے اپنے حالیہ بیان میں یہ اعتراف کیا کہ صحافی جمال خاشقجی کا قتل ایک منظم پروگرام کا حصہ تھا اور یہ قتل عمدا تھا۔ سعودی عرب کے اٹارنی جنرل کا حالیہ بیان اور سعودی حکام کے سابق بیانات پر توجہ دینے سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ 20 یا 22 دنوں کے اندر سعودی حکام نے اتنی تیزی سے بیانات بدلے اتنی جلدی سے گرگٹ بھی رنگ نہیں بدلتا۔ سعودی حکام کے گزشتہ اور اب ان کے بیانات میں اتنا تضاد پایا جاتا ہے کہ سعودی حکام کس طرح کی بیان بازی کر رہے ہیں اور میڈیا کے رخ کو کس سمت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سعودی حکومت نے باضابطہ طور پر اعتراف کر لیا ہے کہ 2 اکتوبر سے لاپتہ صحافی جمال خاشقجی کی موت ہوگئی ہے۔ ریاض حکومت نے اپنے بیان میں دعوی کیا کہ استنبول میں قونصل خانے کی عمارت کے اندر ایک درجن سے زائد سعودی حکام کی جمال خاشقجی سے لڑائی ہوگئی جس کے دوران جماش خاشقجی کی موت واقع ہوگئی ۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ سعودی صحافی کے قتل کے بارے میں سعودی حکام مسلسل انکار کرتے رہے، سعودی حکام کا دعوی تھا کہ جمال خاشقجی قونصل خاناے میں آئے تو تھے لیکن تھوڑی دیر بعد وہاں سے چلے گئے۔ ان کی کہانی میں شروع سے ہی کمی نظر آئی ۔
خاشقجی کے مسئلے میں طرح طرح کی کہانیاں سامنے آرہی تھیں کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے سربراہ نے کہا کہ انہوں نے جمال خاشقجی کی چیخ و پکار کا آڈیو ٹیپ سنا اور اس کی رپورٹ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو روانہ کر دی ہے۔
سعودی عرب کا اٹارنی جنرل مذکورہ بیان دینے پر مجبور ہوا جس میں اس نے اعتراف کیا کہ صحافی جمال خاشقجی کا قتل عمدا ہوا۔ ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سعودی عرب اپنے اسی بیان پرقائم رہے گا، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل کے بارے میں نئی چيزیں سامنے آنے کے بعد وہ پھر سے بیان سے عقب نشینی کر دے اور پھر کوئی نیا ڈرامہ پیش کر دے۔
جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے بن سلمان کے رویے سے پتہ چلتا ہے کہ جوان ولیعہد اس معاملے سے خود کو کنارے کرنے کے لئے بہت زیادہ کوششیں کر رہے ہیں تاہم یہ مسئلہ ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا ہے۔ بن سلمان کو جب یہ محسوس ہونے لگا کہ مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں سعودیوں کے ملوث ہونے سے انکار کرنے کے تمام راستے بند ہوگئے تو انہوں نے دہشت گرد ساتھیوں کو جیل میں بھرنا اور ان پر مقدمہ چلانا شروع کر دیا۔
قابل ذکر ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل کے نئے پہلو سامنے آنے کے بعد آل سعود حکومت نے شدید عالمی دباؤ میں آکر 18 افسروں اور عہدیداروں کو گرفتار کر لیا جس میں سعود القحطانی اور احمد العسیری بھی شامل ہیں، یہاں پر یہ بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان افراد کی گرفتاری اس لئے انجام پائی تاکہ اصل قاتل کا نام سامنے نہ آنے پائے اور یہ افراد اپنے منہ نہ کھولنے پائے۔
در حقیقت بن سلمان اپنے دہشت گرد ساتھیوں کو اکیلا چھوڑ کر چلے گئے کیونکہ کچھ سؤالوں کا جواب آج تک کسی کو بھی نہیں مل سکا۔ پہلا یہ کہ بن سلمان جب یہ دعوی کر رہے ہیں کہ علاقے کی سیکورٹی کی نبض ان کے ہاتھ میں ہے اور جیسے وہ ارادہ کریں گے نا امنی، ایران سمیت دیگر ممالک میں منتقل کر سکتے ہیں، وہ کس طرح اپنے ملک کی سیکورٹی میں لاچار ہیں ۔ وہ یہ کس طرح دعوی کر سکتے ہیں کہ ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور انہیں اچھے اچھے مشورے دینے والوں نے انہیں اطلاع دیئے بغیر مخالف صحافی کو قتل کر دیا؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر کہا جائے کہ گرفتار دہشت گرد گروہ اس قتل کے لئے بن سلمان اور ان سے شخصی ہدایت نہیں لی، تو کس مقصد کے تحت اس قتل کو انجام دیا گیا، وہ ہدف شخصی تھا یا عمومی؟ محمد بن سلمان سے سب سے قریبی کون ہے قحطانی یا عسیری؟
بہرحال گرفتار مشکوک افراد، اس وقت ٹائم بم کی طرح ہیں اور ان میں سے کسی ایک کی آزادی، بہت بڑا دھماکہ کر سکتی ہے اور یہ بن سلمان کے لئے ایک خودکش حملہ ہوگا۔