اسرائیلی جارحیت کا منہ توڑ جواب، توازن پوری طرح بدل گئے + مقالہ
غزہ اور اسرائیل کے درمیاں تصادم بڑھ گیا ہے ۔ اسرائیل کے تحریک آمیز اقدامات کے بعد فلسطینی تنظیموں نے غزہ سے میزائلوں کر بارش کر دی اور اب حالات یہ ہوگئے ہیں کہ بڑی جنگ شروع ہونے کا امکان پیدا ہو گیا ہے ۔
پیر کو اسرائیلی بمباری میں کم از کم تین فلسطینی شہید ہوگئے جبکہ حماس کے الاقصی ٹی وی چینل کی عمارت تباہ ہوگئی ۔ اسرائیلی بمباری سے پہلے فلسطینی تنظیموں نے اسرائیلی علاقوں پر میزائلوں کی بارش کر دی اور حماس سے متعلق القسام بریگیڈ نے کہا کہ ہم دیگر فلسطینی تنظیموں کے ساتھ مل کر میزائل حملوں کا دائرہ مزید وسیع کرنے پر غور کر رہے ہیں ۔ وسیع میزائل حملے کے دائرے میں دس لاکھ صیہونی ہوں گے ۔
موجودہ تصادم تب شروع ہوا جب اسرائیل کی اسپیشل فورس کی ایک ٹیم تین گاڑیوں میں سوار ہوکر غزہ پٹی کے اندر داخل ہوئی اور حماس تنظیم کے مجاہدین سے اس کی جھڑپ ہوگئی ۔ اس جھڑپ میں ایک کمانڈر سمیت حماس کے سات مجاہدین شہید ہوگئے جبکہ فلسطینیوں کے حملے میں اسرائیلی اسپیشل فورس میں شامل ایک کمانڈر ہلاک ہوا ۔ اس واقعے کے بعد فلسطینی تنظیموں نے اسرائیلی علاقوں پر 200 سے زائد میزائل فائر کئے۔ میزائل حملوں میں کم سے کم دو اسرائیلی ہلاک اور درجنوں دیگر زخمی ہوئے۔ موجودہ حالات کے مد نظر حکومت مصر نے اسرائیل ک خبردار کیا ہے کہ وہ غزہ پٹی کے خلاف حملے فوری بند کرے ورنہ حالات پوری طرح سے کنٹرول سے باہر نکل جائیں گے۔
حکومت اردن نے بھی کہا ہے کہ غزہ اور اسرائیل کے درمیان جاری تصادم فوری رکوانے کے لئے عالمی سطح پر کوشش ہونی چاہئے ۔ سینئر عرب تجزیہ نگار عبد الباری عطوان کا کہنا ہے کہ جس طرح فلسطینی تنظیموں نے مل کر اور بغیر دریغ کے اسرائیلی جارحیت کا جواب دیا ہے اس سے یہ پیغام واضح ہے کہ فلسطینی مزاحمتی محاذ کی طاقت میں کافی اضافہ ہو گیا ہے اور ان کے میزائل حملوں کے سامنے اسرائیل کا آئرن ڈوم میزائل ڈیفنس سسٹم بے کار ہو کر رہ گیا ہے ۔
صیہونی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے پیرس میں نامہ نگاروں سے گفتگو میں جو بات کہی اس سے بھی ثابت ہو گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت کو فلسطینی تنظیموں کی طاقت کا پوری طرح سے احساس ہے۔ فلسطینی تنطیموں کی طاقت کا اندازہ تو اہم واقعات سے لگایا جا سکتا ہے ۔
پہلی چيز تو یہ ہے کہ اسرائیلی اسپیشل فورس کی ٹیم جب غزہ کے خان یونس علاقے میں داخل ہوئی تو فلسطینی مجاہدین نے فورا ٹیم کی تین گاڑیوں کی شناخت کر لی اور جھڑپیں شروع گئیں۔ جھڑپ میں ایک کمانڈر سمیت سات فلسطینی شہید ہوئے لیکن فلسطینیوں کے حملے میں اسرائیلی کمانڈر بھی ہلاک ہو گيا اور ایک کمانڈو زخمی ہو گیا۔ اگر فوری طور پر اسرائیل کی فضائیہ نے شدید بمباری نہ شروع کر دی ہوتی تو شاید اس ٹیم کا ایک بھی رکن زندہ واپس جا پاتا ۔
دوسرا اہم واقعہ فلسطینی تنظیموں کا غزہ سے اسرائیلی علاقوں پر چالیس منٹ کے اندر 200 سے زائد اور 24 گھنٹے کے اندر 400 سے زائد میزائل فائر کرنا ہے ۔ اسرائیلی آئرن ڈوم 200 میزائلوں میں سے صرف 60 کو رہی روک پایا جبکہ باقی اپنے نشانے پر لگے ۔ اس حالت کو دیکھ کر اسرائیل کی فوجی اور سیاسی قیادت میں شدید تشویش پیدا ہوگئی ہے ۔
اسرائیلی اسپیشل فورس کی ٹیم غزہ میں کیوں داخل ہوئی، اس بارے میں متعدد نظریات و افکار ہیں ۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ وہ حماس تنظیم کے کسی بڑے رہنما جیسے یحیی سنوار کا اغوا کرنا چاہتی تھی تاکہ اسرائیل حماس کو اپنے قیدیوں کی آزادی کے بارے میں گفتگو کی میز پر لا سکے ۔
دوسرا نظریہ یہ ہے کہ یہ ٹیم اسرائیلی قیدیوں کی آزادی یا ان کے بارے میں معلومات جمع کرنے کے لئے غزہ میں داخل ہوئی تھی جو حماس کے پاس ہیں ۔
تیسرا نظریہ یہ ہے کہ قطر اور مصر کی ثالثی سے حماس اور اسرائیل کے درمیان جو جنگ بندی پر مفاہمت ہوئی تھی اس کا خاتمہ کرنا تھا کیونکہ اس مفاہمت کے بعد اسرائیل کے اندر کافی اختلافات پیدا ہوگئے ہیں اور کچھ لوگ اس کے حق میں ہیں تو کچھ اس کے مخالف ہیں ۔
اسرائیلی حملے کے جواب میں فلسطینیوں کا منہ توڑ جوابی حملے سے اسرائیلی حکومت اور عوام دونوں میں خوف و ہراس پیدا ہو گیا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ بنیامن نتنیاہو اپنا پیرس دورہ ادھورا چھوڑ کر تل ابیب لوٹ آئے اور آتے ہی انہوں نے کابینہ کی سیکورٹی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا ۔
غزہ کی مزاحمتی تنظیموں نے دشمن سے انتقام لینے کے لئے اپنی یکجہتی کا مظاہرہ کرکے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ ہر اسرائیلی جارحیت کا جواب دینے کو تیار ہیں اور اپنی دفاعی طاقت میں مسلسل توسیع کر رہی ہیں ۔
اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک کی دوستی کی نئی لہر کے درمیان فلسطینی تنظیموں کا یہ سخت پیغام ہے کہ ان کی مزاحمت روکنے والی نہیں ہے اور یہ مزاحمت، زمین پر توازن کو تبدیل کرنے کی توانائی رکھتی ہے ۔
یہ پیغام واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے کہ جب تک فلسطین میں مزاحمتی محاذ موجود ہے تب تک ڈیل آف سنچری کو ہرگز کامیاب نہیں بنایا جا سکتا ۔
عرب حکومتیں کچھ بھی کریں مگر عرب اور مسلم عوام، فلسطین کی ان مزاحمتی تنظیموں کے ساتھ کھڑے ہیں ۔