فلسطینی تنظیموں نے اسرائیل کا محاصرہ کر لیا، 48 گھنٹے کی جنگ نے تاریخ بدل دی+ مقالہ
اس وقت یہ بڑا سوال ہے کہ غزہ پٹی میں فلسطینی تنظیموں نے اسرائیل کے ساتھ تصادم میں جو بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور اسرائیل کے خفیہ مشن کو ناکام بنایا ہے نیز صیہونی کالونیوں پر 450 سے زائد میزائل فائر کئے ہیں تو اب آگے کے حالات کیا ہوں گے ؟
کیا پھر سے تصادم شروع ہو جائے گا اور کیا بنیامین نتن یاہو اسرائیلی رای عامہ کے سامنے سر تسلیم خم کر چکی فوج کی ساکھ بحال کرنے کی کوشش کریں گے؟ حماس کے ایک اعلی عہدیدار نے میڈیا کو بتایا کہ آنے والے دنوں میں بہت کم کی امکان ہے کہ غزہ پٹی کے خلاف اسرائیل کوئی انتقامی کاروائی کرنے کی ہمت کرے گا کیونکہ اسرائیلی قیادت کو اچھی طرح یہ بات سمجھ میں آ گئی ہے کہ اس نے ایسا کوئی قدم اٹھایا تو اسرائیل کو بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے، البتہ اس بات کا امکان ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد امریکا کی مدد سے حماس کے اعلی عہدیداروں میں سے کسی پر حملہ کرنے کی کوشش کرے ۔
یہی سبب ہے کہ امریکا نے تین بڑے رہنماؤں کے بارے میں اعلان کیا ہے کہ اگر ان میں سے کسی کے بارے میں کوئی دقیق اطلاع دے تو اسے 50 لاکھ ڈالر کا انعام دیا جائے گا۔ ان میں سے دو کا تعلق حزب اللہ لبنان سے اور ایک کا تعلق حماس سے ہے۔ اس لسٹ میں حماس کے پولیت بیورو کے ڈپٹی چيف صالح العاروری کا نام ہے۔
غزہ پٹی سے جو خبریں موصول ہو رہی ہیں ان سے یہ پتہ چلتا ہے کہ فلسطینی تنظیمیں پوری طرح الرٹ ہیں اور کسی بھی حملے کا جواب دینے کے لئے پوری طرح تیار ہیں تاہم اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ فلسطینی تنظیمیں اس وقت جنگ کا آغاز چاہتی ہیں اس لئے کہ اس وقت اسرائیل خود ہی سیاسی بحران میں پھنسا ہوا ہے اور اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کی حکومت پر خطرے کے بادل منڈرا رہے ہیں ۔
جس طرح نتن یاہو بحران میں ہیں اسی طرح اسرائیل سے سیکورٹی ہماہنگی کرنے والی فلسطینی انتظامیہ بھی شدید بحران کا سامنا کر رہی ہے کیونکہ انتظامیہ خود کو اس وقت پوری طرح حاشیے پر دیکھ رہی ہے ۔ محمود عباس نے غزہ پٹی کے اقتصادی دباؤ ڈال کر اسے جھکانے کی کوشش کی تھی تاہم غزہ پٹی میں بند پڑے بجلی گھر کو پھر سے شروع کرنے کی ذمہ داری اقوام متحدہ نے لے لی نیز قطر نے غزہ پٹی کو 15 ملین ڈالر کی رقم پہنچا دی جس سے حماس نے چھ مہینے سے رکی ملازمین کی تنخواہیں دے دی ہیں تو اب یہ اقتصادی دباؤ بھی ختم ہو گيا ہے ۔
غزہ میں فلسطینی تنظیموں کو اس بار صرف میدان جنگ میں کامیابی نہیں ملی بلکہ ان کی سیاسی اور نفسیاتی فتح بھی ہے۔ اس بعد حماس اور جہاد اسلامی تنظیموں کی عوام کے نزدیک زبردست مقبولیت، 48 گھنٹے تک جاری تصادم سے پہلے کی صورتحال کی بہ نسبت کئی گنا بڑھ چکی ہے ۔
صرف کورنیٹ میزائل نے ہی جس نے اسرائیلی بس کو نشانہ بنایا، پورے اسرائیل میں زلزلہ پیدا کر دیا۔ اگر یہی میزائل حملہ اسرائیلی فوجیوں کے بس سے اترنے سے پہلے کیا جاتا تو شاید اسرائیل کا خوف کئی گنا بڑھ جاتا لیکن غزہ میں فلسطینی تنظیموں کے وار روم نے یہ فیصلہ کیا کہ اس وقت نتن یاہو کو بس بڑا پیغام دینا ہے کہ فلسطینی تنظیموں کے پاس اس طرح کے میزائل ذخیرے موجود ہے جو انہیں حزب اللہ لبنان سے تحفے میں ملا ہے۔
یہ بھی واضح ہے کہ نتن یاہو نے اس پیغام کو اچھی طرح سمج لیا اور جنگ بندی کے لئے فوری کوششیں شروع کر دیں۔ اسرائیل کی تاریخ میں اس کی مثالیں بہت کم ہیں ۔
اس 48 گھنٹے کی جنگ نے غزہ اور اسرائیل کی صورتحال بدل کر رکھ دی ہے اب تو ایسا لگنے لگا ہے کہ اسرائیل نے غزہ پٹی کا نہیں بلکہ فلسطینی تنظیموں نے اسرائیل کو اپنے محاصرے میں لے لیا ہے ۔
بشکریہ
رای الیوم
عبد الباری عطوان