ڈیل آف سینچری، عرب ممالک کی خیانت کا نتیجہ (دوسرا حصہ)
ڈیل آف سینچری تجویز کا پہلا قدم، قدیمی بیت المقدس کو غاصب صیہونی حکومت کے دار الحکومت کے طور پر اس کے حوالے کرنا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دسمبر 2017 میں بیت المقدس شہر کو صیہونی حکومت کے دار الحکومت کی حیثیت سے قبول کیا اور ہدایت دی کہ امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا زمینہ ہموار کیا جائے اور یہ فیصلہ سال جاری کے مئی مہینے میں نافذ کر دیا گیا ۔
مشرق وسطی کے ایک ماہر سید ہادی اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ڈیل آف سینچری کا پہلا قدم بیت المقدس کو اسرائیل کے دار الحکومت کے طور پر قبول کرنا تھا ۔ در حقیقت بیت المقدس ایک بنائے رکھنا، اس کو یہودی رنگ دینا اور دوبارہ اس کی تقسیم کی مخالفت، ڈیل آف سینچری کا اہم حصہ ہے اور فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تنازع کے حل کے لئے جو نام نہاد امن مذاکرات ہوں گے ان میں اب بیت المقدس پر کوئی گفتگو نہیں ہوگی کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس حوالے سے تاکید کی ہے کہ اب مذاکرات کی میز پر بیت المقدس کے حوالے سے کوئی گفتگو نہیں ہوگی ۔
اسی طرح ڈیل آف سینچری نامی معاہدے میں تجویز دی گئی ہے کہ بیت المقدس سے لگے علاقے ابودیس کو فلسطین کا دار الحکومت قرار دیا جائے گا ۔ اسرائیلی اخبار ہارٹس نے اس حوالے سے لکھا ہے کہ ڈیل آف سینچری نام سے مشہو ٹرمپ کی تجویز اس بات کی علامت ہے کہ امریکا بیت المقدس کے مشرق میں واقع ابودیس علاقے کو فلسطین کے دار الحکومت کے طور پر تجویز دینے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس کے مقابلے میں اسرائیل بیت المقدس کے آس پاس کے تین یا پانچ دہی علاقوں سے پسپائی کر لے گا ۔
واضح رہے کہ یہ وہ دہی علاقے ہیں جن پر 1987 سے صیہونی حکومت قابض ہے جبکہ بیت المقدس کا قدیمی علاقہ اسرائیل کے قبضے میں رہے گا اور ٹرمپ کی جانب سے پیش کی گئی تجویز میں اس بات کی کوئی تجویز پیش نہیں کی گئی ہے کہ اسرائیل صیہونی قصبوں کو خالی کرے گا یا ان سے پسپائی اختیار کرے گا ۔