May ۳۱, ۲۰۱۹ ۰۵:۱۳ Asia/Tehran
  • ڈیل آف سینچری، امریکی- صیہونی سازش (پانچواں حصہ)

ڈیل آف سینچری وہ واحد دستاویز نہیں ہے، جو منظر عام پر آنی ہے بلکہ یہ اصل خفیہ ڈیل آف سینچری کا وہ حصہ ہے، جسے منظر عام پر لایا جانا ہے۔ حقیقی ڈیل آف سینچری اس خطے میں ایک ریاست یعنی اسرائیل کا قیام نیز قضیہ فلسطین کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہے۔ پہلے مرحلے میں اتحادیوں کے تعاون سے اس ڈیل کے زیادہ سے زیادہ اہداف کو حاصل کیا جائے گا اور پھر مرحلہ وار ایک طے شدہ منصوبے کے تحت اس خطے میں ایک ریاست کو وجود بخشا جائے گا۔

صدر ٹرمپ نے امریکی صدر کا منصب سنبھالنے کے بعد سے اپنے داماد اور مشیر خاص جیرڈ کشنر اور مشرق وسطیٰ کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی جیسن گرین بلیٹ کے ہمراہ مل کر ایک منصوبہ کی تشکیل پر کام شروع کیا، جسے ٹرمپ ’’ڈیل آف سنچری ‘‘ یعنی صدی کا سودا قرار دے رہے ہیں۔ یہ سودا تاحال خفیہ ہے، جس کے مندرجات سامنے نہیں لائے گئے ہیں۔ اسرائیل میں تعینات سابق سفیر ڈیوڈ فرائڈ مین کے مطابق اس سودے کے ذریعے اسرائیل کو مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقے مل جائیں گے۔ سان فرانسسکو یونیورسٹی کی استاد رباب کا کہنا ہے کہ یہ سودا اسرائیل نواز استعماری منصوبہ ہے۔ رباب نے کہا کہ ٹرمپ، جیرڈ اور جیسن تینوں اسرائیل نواز، نسل پرست اور اسلامو فوبیا کے حامی افراد ہیں۔ اس ڈیل کا مقصد مسئلہ فلسطین کو اپنی ڈگر سے ہٹانا، اس ڈیل سے نبرد آزما ہونے کے لیے فلسطینیوں کو وہی کرنا ہوگا، جو وہ کر رہے ہیں یعنی مزاحمت۔

 7 مئی 2019ء کی اشاعت میں ایک اسرائیلی اخبار Israel Hayom نے اس خفیہ ڈیل کے چند حصوں کو شائع کیا ہے۔ اخبار کے مطابق ان مندرجات پر مشتمل ایک دستاویز اسرائیل کے دفتر خارجہ کے افسران کے مابین تقسیم کی گئی۔ یہ اسرائیلی اخبار، نیتن یاہو کے قریب تصور کیا جاتا ہے۔ دستاویز کے مطابق یہ سودا تین پارٹیوں اسرائیل، پی ایل او اور حماس کے مابین طے پائے گا۔ دستاویز کے مطابق مغربی کنارے اور غزہ کے علاقوں میں نئے فلسطین کے نام سے ایک ریاست تشکیل دی جائے گی، ایک سال کے بعد اس ریاست میں انتخابات ہوں گے اور فلسطینی قیدیوں کو تین برس کے عرصے میں مرحلہ وار رہا کیا جائے گا۔ دستاویز کے مطابق یروشلم تقسیم نہیں ہوگا جبکہ اسرائیل اور نئی فلسطینی ریاست ذمہ داریاں تقسیم کریں گی۔ یروشلم میں رہنے والے فلسطینی نئی فلسطینی ریاست کے شہری ہوں گے، تاہم اسرائیلی میونسپلٹی زمین سے متعلق معاملات کو دیکھے گی۔ نئی فلسطینی ریاست اسرائیلی میونسپلٹی کو ٹیکس دے گی، جس کے بدلے میں وہ یروشلم میں رہنے والے شہریوں کی تعلیم کی ذمہ دار ہوگی۔

اس وقت یروشلم میں تقریباً چار لاکھ سے زائد فلسطینی بستے ہیں۔ اسرائیل ان فلسطینیوں کے ایک خاص عرصے تک شہر سے دور رہنے کی صورت میں ان کی شہریت کو معطل کرسکے گا۔ مغربی کنارے میں اسرائیلی تعمیرات جو کہ عالمی قوانین کے رو سے غیر قانونی تصور کی جاتی ہیں، کو باقاعدہ طور پر اسرائیل کا حصہ تسلیم کر لیا جائے گا۔ اسرائیلی اخبار میں شائع ہونے والی اس دستاویز کے مطابق مصر نئی فلسطینی ریاست کے لیے غزہ کے قریب کچھ علاقہ پیش کرے گا، جس پر ائیر پورٹ، فیکٹریاں اور زرعی سیکٹر قائم کیا جاسکے گا۔ فلسطینی شہریوں کو اس علاقے میں قیام کی اجازت نہیں ہوگی۔ دستاویز کے مطابق مصر کا یہ علاقہ بعد ازاں مشخص کیا جائے گا اور اس پر عمل درآمد ڈیل پر دستخطوں کے پانچ سال کے عرصے میں ہوگا۔ غزہ اور مغربی کنارے کو آپس میں جوڑنے کے لیے اسرائیلی زمین سے تیس میٹر بلند ایک ہائی وے تعمیر کی جائے گی۔ چین اس کے لیے درکار پچاس فیصد رقم مہیا کرے گا۔ سائوتھ کوریا، آسٹریلیا، کینیڈا، امریکا اور یورپی یونین ہر ایک اس ہائی وے کے اخراجات کا دس فیصد مہیا کریں گے۔

جاری

بشکریہ

اہل بیت نیوز ایجنسی

ٹیگس