ڈیل آف سینچری اور عرب ممالک کے مواقف (ساتواں حصہ)
گزشتہ مہینے سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کی جانب سے صیہونی حکومت کے اعتراف سے متعلق دیئے جانے والے بیان اور اس کے بعد بحرین کی آل خلیفہ حکومت کی جانب سے اسرائیل کے اعتراف کے رجحان کو ڈیل آف سینچری کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
کچھ عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششیں جاری ہیں تاکہ غاصب صیہونی حکومت کے لئے مشرق وسطی کی سطح پر جواز پیش کیا جا سکے ۔
ساتھ ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس چیز کا استعمال ملک کے اندر اور باہر اپنی مقبولیت کے لئے کر سکتے ہیں اور وہ اس موضوع کو بڑھا چڑھا کر پیش کر سکتے ہیں کہ اس سے پہلے کے امریکی سربراہ فلسطین- اسرائیل تنازع کو حل نہیں کر سکے تھے جبکہ وہ اس تنازع کو حل کرنے میں کامیاب رہے ہیں ۔
تقریبا ایک سال سے ڈیل آف سینچری کا نام بارہا سننے میں رہا ہے جس کا تعلق فلسطین سے ہے۔ یہ منصوبہ ویسے تو امریکا کا ہے لیکن کہا جا رہا ہے کہ صیہونی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو اس کے اصل ذمہ دار ہیں اور ان کے مشورے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور مشیر جیئرڈ کوشنر نے یہ منصوبہ تیار کیا تھا ۔
فلسطین کے عوام کے ساتھ اور بالخصوص مسم امہ کے ساتھ ایک بہت بڑی خیانت کا ارتکاب کیا جا رہا ہے۔ صدی کی ڈیل کے خدوخال بتا رہے ہیں کہ عالمی سامراجی قوتیں فلسطینیوں کے حقوق کو ماننے سے انکاری ہیں۔ پس ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ سمیت دنیا کی تمام عالمی طاقتوں کی جانب سے لگائے جانے والے دفاع انسانی حقوق کے نعرے کھوکھلے اور بے بنیاد ہیں۔
صدی کی ڈیل یا صدی کا معاہدہ، یہ مغربی ایشیائی ممالک کے لئے اور خصوصاً فلسطین کے لئے امریکی منصوبہ ہے۔ جس کا مقصد فلسطین کے مسئلہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے صہیونی جعلی ریاست اسرائیل کے حق میں ختم کرنا ہے اور خطے کی عرب خلیجی ریاستوں سمیت دنیا کی مسلمان ریاستوں کو غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے قریب تر کرنا ہے۔ اس ڈیل کے تمام پہلوﺅں کو مخفی رکھا گیا ہے، لیکن ایک آدھ ملک کی طرف سے اس کے کچھ خدوخال افشاں کئے گئے ہیں۔ اس ڈیل کو بنانے میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے داماد کوشنر اور صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو سمیت عرب دنیا کی ایک بڑی شخصیت بھی شامل ہے۔ فی الحال امریکہ نے اس ڈیل کو رسمی طور پر اعلان نہیں کیا ہے، تاہم یہ معاہدہ عرب دنیا و خلیجی ممالک کی حکومتوں کے سربراہان کی میز کی زینت بن چکا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اکثریت اس پر دستخط کرچکی ہے۔