نام نہاد خادم حرمین شریفین اور مقدس مقامات کا بے جا استعمال + مقالہ
سعودی عرب نے مئی کے آخر میں مکہ مکرمہ میں تین اجلاس منعقد کئے ۔
اسلامی تعاون تنطیم کے رکن ممالک کے اجلاس کے ساتھ ہی خلیج فارس تعاون کونسل اور عرب لیگ کا ایمرجنسی اجلاس مکہ مکرمہ میں منعقد کیا گیا ۔
ان اجلاس میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں ہونے والے نام نہاد حملوں، تہران کے ساتھ بڑھتی کشیدگی اور مسئلہ فلسطین جسے مسائل پر گفتگو ہوئی ۔
سعودی فرمانروا نے جلد بازی میں مسلم رہنماؤں کو رمضان المبارک کے آخری ایام میں مکہ میں آنے کی دعوت دی تاکہ حساس سیاسی مسائل پر گفتگو کی جا سکے ۔ حالانکہ آل سعود کی یہ کوشش اس کی متضاد پالیسیوں کا آئینہ ہے ۔
در حقیقت یہ تینوں اجلاس، بہت ہی حساس سیاسی مسائل پر سعودی عرب کے لئے حمایت حاصل کرنے کے مقصد سے منعقد کئے گئے تھے ۔
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے آل سعود نے مسلمانوں کے سب سے مقدس شہر مکے کا استعمال کیا ہو، اس سے پہلے بھی کئی بار مسلمانوں کے مذہبی جذبات کا سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔
اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آل سعود حکومت اسلامی مفکرین کے بغیر اسلام کا خواہاں ہے، اس لئے کہ زیادہ تر اسلامی مفکر اور مسلم دانشور سعودی جیلوں میں بند ہیں ۔
آل سعود نے تقریبا 1925 سے مسلمانوں کے دو مقدس ترین مذہبی مقامات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر قبضہ کر رکھا ہے اور اسی کے بعد سے یہ وہابی حکومت اپنے سیاسی مقاصد کے لئے ان کا بے جا استعمال کر رہی ہے ۔
مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ اور وہاں پہنچنے والے زائرین کا خادم ہونے کا دعوی کرکے ہی آل سعود اپنی حکومت کا جواز پیش کرتا رہا ہے ۔
حالانکہ آل سعود حکومت نے دونوں ہی مقدس مقامات میں ہزاروں وہابی مبلغین تعینات کر رکھے ہیں جو پوری دنیا سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پہنچنے والے مسلمانوں پر اپنے کوتاہ نظریات مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور حتی کسی بھی طرح کی سیاسی سرگرمیوں میں شامل ہونے کی بابت خبردار کرتے ہیں ۔
تاہم یہ وہابی مبلغ اور مولوی آل سعود کی تعریف کرتے نہیں تھکتے اور زائرین پر بھی ان کے لئے دعا کرنے کا دباؤ بناتے ہیں ۔
وہ رہ مسلمان جو آل سعود حکومت کا ناقد ہے یا سامراجی طاقتوں کی مخالفت کرتا ہے، اسے مکے میں داخلے سے روک دیا جاتا ہے۔
اس کی ایک مثال 1980 کے عشرے میں مکہ مکرمہ میں امریکا مردہ باد کے نعرے لگانے کے جرم میں ایرانی حاجیوں اور زائرین پر گولیوں کی بارش کرنا ہے ۔
حالیہ برسوں میں قطر کے شہریوں اور غزہ کے فلسطینوں کو حج کے موقع پر ویزا جاری نہیں کیا گیا اور انہیں حج سے محروم کر دیا گیا ۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ناامید ہونے کے بعد اب ایران کے خلاف مسلم ممالک کو صف بند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
حالانکہ مکہ مکرمہ کے اجلاس میں ایران کے خلاف مسلمان ممالک کی حمایت حاصل کرنے میں دونوں ممالک بری طرح سے ناکام ہوگئے ۔