سعودی دودھارو گائے کو دوھنے میں ٹرمپ مصروف
خبر رساں ایجنسی سی این این کی ویب سایٹ نے اپنے ایک تجزیہ میں لکھا کہ سعودی عرب اسلحوں کی دوڑ میں تو پہلے ہی شامل ہو چکا تھا اور اب جس کے بارے میں بہت کم ہی سنا گیا ہے وہ یہ ہےک ہ ریاض ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کا پیاسہ ہے اور ٹرمپ خاندان اس بارے میں اس کی مدد کر رہا ہے ۔
سی این این کے مشہور تجزیہ نگار نک پیٹن والش نے اپنے مقالے میں لکھا کہ شاید واشنگٹن نے خود کو اس دعوے میں الجھا رکھا ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کے درپے ہے تاہم ہو اپنی اس کرتوت سے علاقے میں ہتھیاروں کی رقابت تیز کرنے کا سبب بن گیا ہے، یہ ایسی دوڑ ہے جس میں وائٹ ہاوس میں موجود موجودہ خاندان اور سعودی محل میں موجود خاندان ایک دوسرے کے رابطے میں ہیں ۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے علاقے کی صورتحال کو لے کر جو ہنگامہ مچا رکھا ہے اسی کی وجہ سے وہ سعودی عرب کے ساتھ 110 ارب ڈالر کا فوجی معاہدہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔
سی این این کے صحافی لکھتے ہیں کہ اس کے علاوہ ٹرمپ انتظامیہ نے گزشتہ مہینے امریکی کانگریس کو دھوکہ دے کر اور ایران کے ساتھ خطرہ بڑھنے کے دعوے کے ساتھ ایمرجنسی کا اعلان کرکے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اردن کو آٹھ ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کئے ۔
نک پیٹن والش نے لکھا کہ تاہم سعودی عرب خراب حالات سے سوء استفادہ کرکے امریکا سے رائج اور غیر رائج ہر طرح کے ہتھیار جمع کرنے کی کوشش میں ہے، اس نے واشنگٹن کے حریفوں سے بھی ہر طرح کے ہتھیاروں کی خریداری کی درخواست کی ہے ۔
امریکی تجزیہ نگار لکھتے ہیں کہ امریکی کانگریس کے پاس خفیہ دستاویزات اور اطلاع ہیں کہ ریاض نے حالیہ برسوں میں بیلسٹک میزائلوں کے لئے بیجنگ کا بھی رخ کیا جبکہ 1987 میں ہونے والا معاہدہ ریاض کو اس ٹکنالوجی کی خریداری سے روکتا ہے جو عام تباہی کے ہتھیاروں کے حصول کا سبب بنے ۔ یہی سبب ہے کہ سعودی عرب نے مجبور ہوکر اس بارے میں چین کی جانب ہاتھ بڑھا دیا ہے ۔
سعودی فرمانروا علاقے میں سب سے بڑا اور بہترین ہتھیاروں کا ذخیرہ خود سے مخصوص کرنا چاہتے ہیں اور یہی سبب ہے کہ امریکی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ ریاض کو عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تباہی پر پابند رہنا ہوگا ۔
ارنا نے رپورٹ دی ہے کہ سعودی حکام نے دعوی کیا ہے کہ سمندر کے پانی کو میٹھا بنانے کے لئے انہیں ایک ایٹمی ریکٹر کی ضرورت ہے تاہم اس طرح کے ریکٹرکی خفیہ خریداری نے سب کی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے ۔
سی این این کے تجزیہ نگار لکھتے ہیں کہ جنگوں اور جھڑپوں سے تنگ آ چکے علاقے میں سعودی عرب کو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کرنے کا واشنگٹن کا فیصلہ، فلیتے میں آگ لگانے جیسا ہوگا جس کا دھماکہ دور دور تک حتی امریکا اور یورپ تک بھی سنائی دے گا ۔