کون ہے اس زمانے کا صدام؟؟؟؟
واشنگٹن پوسٹ نے چیف ایڈیٹر اور مقالہ نگار جیکسن ڈائی ہل نے "ہمارے نئے صدام حسین" عنوان کے تحت ایک مقالہ شائع کیا ہے۔
ایک وقت تھا جب تیل سے مالا مال عرب ملک کا ایک ظالم اور لاپرواہ آمر تھا جس کے انسانی سوز خطرناک مظالم کے باوجود، امریکا اور ديگر عرب حکومتیں اس کی حمایت کرتی تھیں ۔
وہ خوفناک اور بھیانک جرائم کرتا تھا اور اپنے جرائم کا جواز پیش کرتا تھا لیکن اپنے ملک کو پیشرفتہ کر رہا تھا اور اس نے اسلامی جہادیوں اور ایران کے خلاف لکیر کھینچ رکھی تھی ۔
آمر اور ڈکٹیٹر کو ایک پیغام موصول ہوا جس سے اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جب تک وہ تیل کی سپلائی جاری رکھے گا اور ایران کی مخالفت کرتا رہے گا، اسے ملک میں اپنے مخالفین کی سرکوبی اور پڑوسیوں پر رعب جمانے کا پورا حق حاصل رہے گا۔
بے شک اس کا نام صدام حسین تھا ۔ امریکا اور اس کے مغربی ساتھیوں نے اس پر داؤ لگایا، جس کے نتیجے میں اس نے 1990 میں کویت پر قبضہ کرنے کے لئے حملہ کر دیا اور وہاں سے مشرق وسطی میں کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ کا آغاز ہوا۔
اب 30 سال بعد بھی، وہ طاقتیں اور رہنما اپنی غلطی بارہا تکرار کر رہے ہیں۔ وہ دعوی کرتے ہيں کہ وہ سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کے گھنونے جرائم سے نفرت کرتے ہيں۔ جیسا کہ واشنگٹن پوسٹ کے صحافی جمال خاشقجی کا بے رحمی سے قتل، حقوق نسواں کا مطالبہ کرنے والی خواتین کو ایذائیں دینا اور انہیں جیلوں میں رکھنا، جنگ یمن میں جنگی جرائم انجام دینا اور لاکھوں افراد کا قتل عام کرنا۔
ان سب کے باوجود، گزشتہ ہی ہفتے جاپان کے اوسکا میں جی-20 سربراہی اجلاس میں وہ اس کے ارد گرد گھوم رہے تھے اور خوشی سے جھوم رہے تھے، ان میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے لے کر یورپ کے بڑے بڑے ممالک کے وزرائے اعظم اور سربراہ تھے ۔ صرف وہ ہی نہیں بلکہ ہندوستان، جنوبی کوریا اور جاپان کے رہنماؤں نے بھی محمد بن سلمان کا دل کھول کر استقبال کیا ۔
ان سے پوچھنا چاہئے کیوں؟ آپ کو اس سے ملتے جلتے جواب سننے کو ملیں گے، جیسے کہ ولیعہد سعودی عرب کی پیشرفت کے لئے سنہرا موقع ہیں ۔ وہ اسلامی انتہا پسندی سے بر سر پیکار ہیں، وہ ہمارے اور اسرائیل کے شریک ہیں اور ایران کے مخالف ہیں ۔ ان کا کوئی جانشین ملنا مشکل ہے۔
اگنیس کیلمرڈ نے اکتوبر میں استننبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں خاشقجی کے قتل اور لاش کو ٹھکانے لگانے کی پانچ مہینے تک تحقیقات کی ۔ 19 جون کو، کیلمرڈ نے ایک پختہ رپورٹ جاری کی جس میں ذکر کیا گیا کہ خاشقجی کو ایک منصوبے کے تحت اور اعلی حکام کے حکم کے مطابق ہی قتل کیا گیا ہے جس کے لئے سعودی عرب کی حکومت ذمہ دار ہے۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل اینٹونیو گوٹریس اور ایف بی آئی نے آزادانہ طور پر جمال خاشقجی کے قتل کیس کی تحقیقات کرائی ۔ اس رپورٹ میں بھی محمد بن سلمان پر پابندی عائد کرنے اور بیرون ملک ان کے اثاثے ضبط کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
ان سب کے باوجود، صدام کی طرح محمد بن سلمان بھی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وہ پوری طرح سے محفوظ ہیں ۔ ان کے حکم سے جیلوں میں بند خواتین ارکان ابھی بھی قید و بند میں ہیں۔ ان کے جنگی طیارے اب بھی یمن پر بمباری کر رہے ہیں اور وہ ایٹمی اسلحہ بنانے کے لئے پہلا قدم بھی بڑھا رہے ہیں۔ اس لئے کہ مغربی حکومتوں نے انہیں اب تک ایسا کرنے سے نہیں روکا ہے، وہ انہیں تب روکیں گی جب علاقہ اور دنیا اس کی بھاری قیمت ادا کر چکا ہوگا۔