سانحہ مسجد الاقصی کو پچاس سال ہوگئے
Aug ۲۱, ۲۰۱۹ ۱۶:۲۷ Asia/Tehran
اکیس اگست، صہیونیوں کے ہاتھوں مسجدالاقصی کو آگے لگائے جانے کی پچاسویں برسی ہے اور اس دن کو یوم مساجد کا نام دیا گیا ہے۔
مسلمانوں کے قبلہ اول اور آسمانی مذاہب کے مقدس ترین مذہبی مقام، مسجدالاقصی کو صیہونی غاصبوں نے اکیس اگست انیس سو انہتر کو آگ لگا دی تھی، یہ واقعہ صہیونی غاصبوں کے جرائم کا ایک اور ثبوت اور کلنگ کا ایسا ٹیکہ ہے جو غاصبوں کی پیشانی سے کبھی صاف نہیں ہوگا۔صیہونی حکومت نے، دنیا بھر کے مسلمانوں کے غیظ وغضب کی آگ بھڑکانے والے اس واقعے کا ذمہ دار ڈینس مائیکل روھان نامی انتہا پسند آسٹریلوی نژاد یہودی سیاح کو قرار دیا تھا تاکہ اس پر نمائشی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے اور بعد ازاں یہ دعوی کرتے ہوئے کہ یہ شخص نفسیاتی مریض ہے اسے چھوڑ دیا جائے۔آگ زنی کے اس واقعے میں مسجد الاقصی کی چھت کا دو سو مربع میٹر حصہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا اور مسجد کے گنبد پر پانچ جگہوں پر جلنے کے آثار نمایاں تھے جبکہ آٹھ سو سال قدیم منبر جل کر راکھ ہوگیا۔
صہیونی حکومت بیت المقدس پر قبضے کے بعد سے آج تک اس شہر کے اسلامی تشخص اور آثار کو مٹانے کی بے شمار کوششیں کرتی چلی آئی ہے جن میں تاریخی عمارتوں اور اسلامی مقامات کو تباہ کرنا، صیہونی بستیوں کی زیادہ سے زیادہ تعمیر، عرب آبادی کو اپنے عربی شناختی کارڈ کی اسرائیلی شناختی کارڈ میں تبدیلی پر مجبور کرنا اور بہت سے دوسرے اقدامات شامل ہیں۔ ان تمام اقدامات کا مقصد بیت المقدس کے مسلمانوں سے ان کا عربی اور اسلامی تشخص ختم کرکے شہر کو یہودی رنگ دینا ہے۔
پچھلے پچاس برس سے صیہونی فوجیوں نے مسجد الاقصی کو اپنے محاصرے میں لے رکھا ہے اور ماہرین کے مطابق زیر زمین کھودی جانے والی سرنگوں نے مسجد الاقصی کی بنیادوں کو کمزور کردیا ہے۔بیت المقدس اور مسجد الاقصی کے خلاف صہیونی حکومت کے تسلط پسندانہ اقدامات کا سلسلہ ایسے وقت میں جاری ہے کہ اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے یونیسکو نے دوہزار سولہ میں ایک قرارداد کے ذریعے بیت المقدس کے تمام مذہبی مقامات اور خاص طور سے مسجد الاقصی کے ساتھ یہودیوں کے ہر طرح قسم کے تاریخی، مذہبی یا ثقافتی تعلق کو مسترد اور اس مسجد کو صرف مسلمانوں کا مقدس مقام قرار دیا تھا۔