Sep ۲۱, ۲۰۱۹ ۲۲:۱۷ Asia/Tehran
  • چاروں طرف سے موت اسرائیل کی جانب بڑھ رہی ہے(دوسرا حصہ)

دوسری بات یہ ہے کہ حزب اللہ اور ایران کے پاس اس وقت تین اسرائیلی ڈرون پہنچ چکے ہیں جو حال ہی میں سرنگوں کئے گئے ہیں۔ ان ڈرون طیاروں میں اطلاعات کے ذخائر ہیں ۔ ان اطلاعات کو اسرائیل کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔  

تیسری بات یہ ہے کہ حزب اللہ نے اپنے فضائی دفاعی سسٹم سے اسرائیلی ڈرون طیارے کو سرنگوں کرکے اسے بہت بڑا نقصان پہنچا دیا ہے۔ اسرائیل ان ڈرون طیاروں کو ہندوستان اور ترکی جیسے ممالک کو فروخت کرکے کافی رقم کما لیتا تھا۔

اب آتے ہیں جنوبی دمشق سے اسرائیل پر کئے جانے والے میزائل حملے کی جانب۔ اس واقعے کا مطلب یہ ہے کہ ایران اور شام کی مشترکہ حکمت عملی میں تبدیلی رونما ہوگئی ہے۔ یعنی وہ زمانہ گیا کہ جب اسرائیل یکطرفہ طور پر شام کے اندر اپنے جنگی طیاروں اور میزائلوں سے حملے کرتا رہتا تھا۔ یہ میزائل حملہ اس وقت کیا گیا ہے جب نتن یاہو روس کے دورے پر جانے کی تیاری کر رہے تھے۔

اسرائیل ان دنوں جتنی بے چینی سے وقت گزار رہا ہے اس سے پہلے اس کے لئے کبھی پیدا نہیں ہوئی کیونکہ وہ ایک ساتھ تین محاذ پر جنگ میں مصروف ہے۔ البوکمال کے علاقے میں بمباری کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کے خلاف کبھی بھی عراقی محاذ بھی کھل سکتا ہے۔

اگر ان واقعات کو جنگ نہیں کہا جائے گا تو کیا کہا جائے گا؟ ایران کے زیر قیادت اسلامی محاذ سے متعلق تنظیموں اور تحریکوں نے اسرائیل کو تھکا تھکا کر مار دینے والی حکمت عملی پر کام شروع کر دیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ حالت وسیع جنگ تک پہنچ جائے۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسرائیلی قیادت نے جان بوجھ کر اپنا ڈرون لبنان کی فضائی حدود میں بھیجا ہو تاکہ حزب اللہ کے بارے میں اندازے لگائے کہ وہ کس حد تک آمادہ ہے؟ اس امتحان میں تو حزب اللہ کامیاب ہو گیا جبکہ اسرائیل پر خوف طاری ہو گیا ہے۔

اس واقعے کے بعد سید حسن نصر اللہ نے ہزارویں بار اپنا وعدہ پورا کیا اور بہت ہی شاندار انداز میں پورا کیا ہے۔ اس بات کا پورا امکان ہے کہ آنے والے دنوں میں شام اور عراق سے اسرائیل پر میزائل اور ڈرون حملے ہوں کیونکہ اسرائیل نے شام اور عراق کے اندر اسلامی مزاحمتی محاذ میں شامل تنظیموں پر میزائل حملے کئے ہیں ۔

آنے والے دن اسرائیلی وزیر اعظم اور فلسطینی علاقوں میں آباد صیہونیوں کے لئے اچھے نہیں ہوں گے۔ در اصل اسرائیل کے بدترین دن شروع ہو چکے ہیں ۔

بشکریہ

رای الیوم

عبد الباری عطوان

* مقالہ نگار کے ذاتی خیالات ہیں، سحر عالمی نیٹ ورک کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے *

ٹیگس