Nov ۱۴, ۲۰۱۹ ۰۹:۴۳ Asia/Tehran
  • کسے اپنی پالیسیاں تبدیل کرنی چاہئے... سعودی عرب کو یا ایران کو؟ (دوسرا حصہ)

سعودی عرب کی آرامکو کمپنی پر حملے کا امریکا نے خوب فائدہ اٹھایا اور دنیا میں تیل پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک بن  گیا۔

امریکا، چین کے ساتھ ٹریڈ وار میں پھنسا ہوا ہے اور چین، سعودی عرب کے تیل پر بہت زیادہ منحصر ہے جس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ سعودی عرب میں تیل کے مسائل، چین کو پریشان کرے گا اور امریکا کا فائدہ کراوئے گا۔ در اصل امریکا اس نتیجے پر پہنچ گیا تھا کہ تیل کے بازار میں ہنگامہ آرائی سے اس کا اقتصاد بالکل بھی متاثر نہیں ہوگا۔

سعودی عرب کو آرامکو کمپنی کے شیئر فروخت کرکے درآمد پر بہت زیادہ بھروسہ تھا تاہم اس کی آمدنی سے ولیعہد بن سلمان کے عظیم منصوبے ویجن-2030 کے لئے بجٹ جمع کیا جائے لیکن آرامکو حملے سے اس کے سارے شیئر کی قمیتیں کم ہوگئیں اور سعودی عرب کو شیئر فروخت کرنے کا پروگرام معطل کرنا پڑا۔

جان بولٹن جیسے جنگ پسند افراد کو اپنے ارد  گرد جمع کرنے کی وجہ ڈیموکریٹس کی تنقیدوں کا شکار ٹرمپ خود کو امن پسند ثابت کرنے کی کوشش کرتے نظر آ رہے ہیں۔ انہوں نے جان بولٹن کو برطرف کر دیا اور سعودی عرب کی صورتحال پر توجہ نہيں دے رہے ہيں بلکہ یہاں تک پیغام دے رہے ہیں کہ ایران کے ذریعے آرامکو پر حملے میں شرکت کے باوجود وہ ایران کے خلاف جنگ کو ترجیح نہیں دیتے۔

ان حالات میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ سعودی عرب کی بے پناہ دولت کسی جنگ میں اس کے کام آئے گی؟ اس کا سیدھا سا جواب ہے کہ نہیں! ٹرمپ تو ہر دن ٹویٹ کرتے ہیں کہ سعودی فرمانرواؤں کو اگر امریکا کی مدد نہ ملے تو وہ دوہفتوں میں اقتدار سے بے دخل کر دیئے جائیں گے۔ پہلے تو ہم سمجھتے تھے کہ ٹرمپ، امریکی انتخاباتی سیاست کی وجہ سے اس طرح کے بیانات دے رہے ہیں لیکن آرامکو پر حملے کے بعد یہ ثابت ہو گیا کہ وہ حقیقت میں یہ بیان دے رہے تھے  کیونکہ امریکا عقب نشینی کر گیا اور سارا بوجھ سعودی عرب پر ڈال دیا۔

بس اس نے ایران کے سینٹرل بینک پر پابندی ہی عائد کی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے واضح طور پر ایران پر الزام لگایا اور امریکا نے ایک تحقیقاتی ٹیم بھیجنے کا اعلان کر دیا۔ اس طرح کے اقدامات سے ثابت ہو گیا کہ امریکا، سعودی عرب کی وجہ سے کسی جنگ میں نہيں کودے گا البتہ وہ سعودی عرب کو لوٹ ضرور لے گا۔

تو ان حالات میں یہ عادل الجبیر کیا بیان دے رہے ہیں؟ سعودی عرب کو چاہے جتنا خطرہ ہو، وہ خطرے امریکا کو ایران کے خلاف میدان میں نہیں اتار سکتے۔ خود سعودی عرب کی تو یہ حالت ہے کہ وہ یمن کے دلدل سے نکلنے کے لئے ہاتھ پیر مار رہا ہے اور اس کے اہم ٹھکانے، یمنییوں کے نشانے پر ہیں اور خود سعودی بھی، الحوثیوں پر بھی بڑا اور موثر حملہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اس لئے عادل الجبیر کی زبان کو لگام لگانے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ سعودی عرب کو پھر سے پھنسا دیں گے۔

سعودی ولیعہد بن سلمان کو چاہئے کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کا راستہ تلاش کریں کیونکہ یہ محسوس ہو رہا ہے کہ ایرانی، مذاکرات کے لئے تیار ہیں جس کا ایک ثبوت ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اگر حالات مناسب ہوں تو وہ ریاض کا سفر کرنے کو تیار ہیں۔

اور آخر میں سعودی رہنماؤں کو ایک مشورہ، الجبیر کا منہ بند کر دو بے چارے کا دماغ چل گیا ہے۔

بشکریہ

رای الیوم

عبد الباری عطوان

* سحر عالمی نیٹ ورک کا مقالہ نگار کے موقف سے متفق ہونا ضروری نہيں ہے *

ٹیگس