امریکی وفد کا دورہ غیر قانونی ہے، ترکی کا اختلاف غیر منطقی ہے: شام
Mar ۰۵, ۲۰۲۰ ۱۶:۴۱ Asia/Tehran
شام کے صدر بشار اسد نے کہا ہے کہ ان کے ملک نے اب تک ترکی کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا ہے اور ترکی کا موجودہ رویہ غیر منطقی ہے ۔ اسی کے ساتھ شام کی وزارت خارجہ نے ایک امریکی وفد کے غیر قانونی طور پر ادلب کا دورہ کرنے کی مذمت کی ہے۔
شام کی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کرکے کہا ہے کہ امریکی وفد کا دورہ ادلب غیر قانونی اور جارحانہ اقدام ہے ۔ شام کی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت کے اس غیر قانونی اور جارحانہ اقدام سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ امریکی حکومت خود کو تمام بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے منشور سے بالاتر سمجھتی ہے اور دوسرے ملکوں کے داخلی امور میں مداخلت نہ کرنے نیز ان کے اقتدار اعلی کے احترام کے اصول کی اس کی نگاہ میں کوئی اہمیت نہیں ہے ۔
یاد رہے کہ شام کے امور میں امریکی نمائندے ، جمیز جفری ، اقوام متحدہ میں امریکی مندوب کیلی کرافٹ اور ترکی میں متعین امریکی سفیر ڈیوڈ ساٹر فیلڈ نے تین مارچ کو غیر قانونی طور پر ترکی کی سرحد سے شام میں داخل ہوکے شام میں دہشت گردوں کے آخری گڑھ ادلب کا دورہ کیا۔
اس دوران شام کے صدر بشار اسد نے اپنے ملک کے خلاف ترکی کی جارحانہ کارروائیوں پر تعجب اور دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی حکومت نے اب تک ترکی کے خلاف کوئی دشمنانہ اقدام نہیں کیا ہے ۔
انھوں نے رشا ٹوئنٹی فور ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان موجودہ کشیدگی اور ترکی کی کارروائیاں غیر معقول اور بلاجواز ہیں ۔
شام کے صدر بشار اسد نے کہا کہ دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان کافی اشتراکات پائے جاتے ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ بہت سے ترک باشندے ، شامی نسل کے اور بہت سے شامی باشندے ترک نسل کے ہیں ۔
انھوں نے کہا کہ ترکی کے ساتھ شام کے حیاتی اہمیت کے مشترکہ مفادات پائے جاتے ہیں ۔ شام کے صدر نے کہا کہ ترکی اور شام کے درمیان بہت ہی مضبوط تاریخی اور ثقافتی رشتے ہیں بنابریں ان کے درمیان کشیدگی اور اختلافات غیر منطقی ہیں ۔
دوسری طرف شام کی فوج نے صوبہ ادلب کے اہم شہر سراقب اور اجناد القوقاز پر تکفیری دہشت گرد گروہ جبہت النصرہ کے ایک اور حملے کو پسپا کردیا ہے۔ شام کی فوج نے اس دہشت گرد گروہ کے حملے کو ناکام بنانے کی کارروائی کے دوران ڈیڑھ سو سے زائد دہشت گردوں کو ہلاک کردیا ۔
رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ جبہت النصرہ کے دہشت گرد، شامی فوج کے کاری جوابی حملے کے بعد پسپائی اختیار کرکے سراقب کے شمال اور جنوب مغرب میں واقع اپنے ٹھکانوں کی طرف لوٹ گئے ۔
یاد رہے کہ شامی افواج گزشتہ نو سال سے امریکا ،یورپ اور چند علاقائی حکومتوں کے حمایت یافتہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ کررہی ہیں۔
شامی افواج نے اسلامی جمہوریہ ایران کی فوجی مشاورت، اور روس نیز استقامتی محاذ کے تعاون سے داعش کو مکمل شکست دے کر اپنے سبھی علاقے اس خطرناک دہشت گرد گروہ سے آزاد کرالئے اور اب شام میں کوئی علاقہ داعش کے تسلط میں نہیں ہے ۔ داعش کو ختم کرنے کے بعد شامی افواج نے دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائیاں شروع کیں اور اب دہشت گردوں کے آخری گڑھ ادلب کی جانب تیزی سے پیشقدمی کررہی ہیں ۔
ادلب کی جانب شامی افواج کی پیشقدمی روکنے کے لئے امریکا اور ترکی نے تگ دو تیز کردی ہے اور ترکی نے غیر قانونی طور پر شام میں اپنے فوجی اتار کے ادلب کے قریب فوجی مورچے بنالئے ہیں اور دہشت گردوں کے خلاف شامی افواج کے آپریشن کی مخالفت کررہی ہے ۔
اس درمیان خود ترکی کے اندر شام میں فوجی مداخلت کی مخالفت بڑھ گئی ہے اور بدھ کو ترک پارلیمنٹ میں اسی مسئلے میں حکمراں اور اپوزیشن اراکین کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوگئی ۔