آخری سانس اپنے ہم وطنوں اور بچوں کے درمیان لینا چاہتا ہوں: فلسطینی قیدی
صیہونی جیل میں قید رکھے جانے کے خلاف احتجاج کے طور پر فلسطینی قیدی ماہر الاخرس کی بھوک ہڑتال کو تین ماہ مکمل ہو چکے ہیں جس کے سبب ان کی حالت شویشناک ہو گئی ہے لیکن اس کے باوجود اسرائیل کی نام نہاد عدالت انھیں ہسپتال منتقل کرنے سے گریز کر رہی ہے۔
المیادین کی رپورٹ کے مطابق صیہونی حکومت کی نام نہاد عدالت فلسطینی قیدی ماہر الاخرس کی تشویشناک حالت کے باوجود انھیں ہسپتال منتقل کرنے سے گریز کر رہی ہے اور عدالت نے ایک غیر قانونی اور غیر انسانی فیصلہ دیتے ہوئے انھیں ہسپتال منتقل نہ کرنے اور جیل میں رکھنے کا فیصلہ سنایا ہے۔
ماہر الاخرس کے وکیل احلام حداد نے کہا ہے کہ ماہر الاخرس نے اپنے وصیت نامے میں لکھا ہے کہ انہیں غرب اردن کے ہستپتال منتقل کیا جائے تا کہ ان کی آخری سانس اپنے ہم وطنوں اور بچوں کی موجودگی میں نکل جائے۔
فلسطین میں ریڈ کراس کے نمائندہ دفتر نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ 3 مہینے سے بھوک ہڑتال کے سبب فلسطینی قیدی ماہر الاخرس کی حالت بگڑتی جا رہی ہے اور اس فلسطینی قیدی کو کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس بیان کے مطابق ریڈ کراس کے ڈاکٹروں کی ٹیم نے ان کا معائنہ کرنے کے بعد انکی حالت کو تشویشناک قرار دیا ہے۔
دریں اثنا صیہونی جیل ’عوفر‘ میں کی جانے والی اس بھوک ہڑتال میں مختلف فلسطینی گروہوں منجملہ حماس، جہاد اسلامی، فتح اور دیگر فلسطینی گروہوں کے 40 سے زائد قیدی بھی شامل ہو گئے ہیں اور غاصب صیہونی حکومت نے ان قیدیوں کے خلاف تادیبی کارروائی کرتے ہوئے انہیں قید تنہائی میں رکھ دیا ہے۔
مذکورہ قیدیوں نے فلسطینی اسیر ماہر الأخرس کی حمایت میں 12 اکتوبر سے بھوک ہڑتال شروع کی ہے۔ صیہونی جیل کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ فلسطینی قیدیوں کا یہ اقدام جیل قوانین کے خلاف ہے۔
واضح رہے کہ 49 سالہ ماہر الأخرس کو 27 جولائی کو وجہ بتائے بغیر گرفتار کیا گیا تھا اور وہ اپنی بلا جواز گرفتاری کے خلاف گزشتہ تین ماہ سے بھوک ہڑتال پر ہیں جس کے باعث ان کی حالت تشویشناک ہو گئی ہے۔