کیا اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے بعد سعودی اور امارات خطے کے حالات بدل پائيں گے؟
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، مغرب اور اسرائیل کے تعاون سے خطے میں اپنی ایک پوزیشن بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن کیا وہ اس میں کامیاب ہوسکیں گے؟
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور امارات مغرب اور صیہونی حکومت سے اتحاد کرکے اس علاقے میں ایک خاص مقام حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی پوری توجہ کچھ عرب ممالک میں دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کی ہر ممکن حمایت اور بدامنی پیدا کرنے پر مرکوز کر رکھی ہے۔
فوجی اور سیاسی مبصرین کی نظر میں ان دونوں ممالک نے غاصب صہیونی حکومت سے گٹھ جوڑ کر لیا ہے اور وہ امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ان دونوں کی مدد سے وہ مغربی ایشیا کے خطے میں اپنی ایک پوزیشن بناسکیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی تمام تر کوششیں رائیگاں جائيں گي۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جب سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ولیعہدوں کی سربراہی میں دونوں ملکوں کی رابطہ کونسل کی تشکیل عمل میں آئي ہے تبھی سے اس کونسل کی سب سے اہم ذمہ داری ایران اور ترکی کے ساتھ علاقائی سطح پر مقابلہ آرائي اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی استواری کی حمایت کرنا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اس کونسل کو علاقے کے پولیس مین کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے بادشاہ اور ولی عہد یا متحدہ عرب امارات کے حکمراں جو بھی منصوبہ پیش کریں گے وہ یقینی طور پر ڈکٹیٹ کیا گیا ہوگا اور اس کا متن واشنگٹن میں تیار ہوا ہوگا۔ خطے میں اس منصوبے کو نافذ کرنا ہی ان دونوں عرب حکومتوں کی ذمہ داری ہوگی۔ اس قسم کے منصوبوں سے علاقائی اقوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ یہ منصوبے صرف امریکہ اور صہیونی حکومت کے مفادات کو یقینی بنانے کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔