Jan ۲۶, ۲۰۲۱ ۱۵:۵۷ Asia/Tehran
  • یمن سے متعلق سعودی عرب کے متضاد بیانات (تبصرہ)

سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے تضاد بیانی سے کام لیتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ ریاض یمن میں جنگ بندی چاہتا ہے۔

سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان آل سعود ایک طرف یمن میں جنگ کو روکنے کی بات کر رہے ہیں تو دوسری طرف وہ امریکہ کی طرف سے یمن کی عوامی جماعت انصاراللہ کو دہشت گرد قرار دینے کے اقدام کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔

دو ماہ کے بعد یمن پر سعودی جارحیت کو شروع ہوئے چھ سال مکمل ہو جائیں گے اور آل سعود کی خام خیالی میں چند ہفتوں میں ختم ہونے والی یہ جنگ ساتویں سال میں داخل ہو جائے گی۔

یہ جنگ اکیس ویں صدی میں اب ایک بڑے انسانی المیہ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اس جنگ میں ایک لاکھ عام شہری جاں بحق، لاکھوں زخمی اور چالیس لاکھ سے زیادہ بے گھر ہو چکے ہیں۔

سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے حملے میں اس غریب عرب ملک کا انفرا اسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔

یہ بھی دیکھئے: یمن میں آل سعود کے سنگین جرائم کی ایک مختصر رپورٹ

اس صورت حال میں سعودی عرب کا جنگ بندی پر آمادہ ہونا ، اس ممکنہ خوف کا نتیجہ ہے جو اس جنگ کی صورت میں سعودی اور اس کے بعض اتحادیوں پر طاری ہے۔

سعودی عرب نے باراک اوباما کے دور صدارت میں یمن پر جارحیت کا آغاز کیا تھا اور ڈیموکریٹس کے دور میں شروع ہونے والی جنگ ری پبلیکنز صدر ڈونالڈ ٹرامپ کے چار سالہ دور میں جاری رہی اور اس طرح امریکہ اس جنگ اور یمن میں وقوع پذیر ہونے والے انسانی المیے میں برابر کا شریک ہے۔

امریکی حمایت کے بغیر اس جنگ کا جاری رہنا نیز یمن میں انسانی حقوق کی پامالی کا یہ سلسلہ ناممکن تھا۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ کی نئی حکومت اس بات کا احساس کررہی ہے کہ یمن کے حوالے سے اسکی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے اور اسے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔

جوبائیڈن حکومت کی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے اپنے بیان میں اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ امریکی وزارت خارجہ انصاراللہ کو دہشت گرد قرار دینے کے ٹرمپ حکومت کے فیصلے پر نظرثانی کا سلسلہ شروع کرنے والی ہے۔

دوسری جانب  کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر اور کارٹر، ریگن، اور فورڈ کے دور حکومت میں سلامتی کونسل کے رکن رہنے والے گری سیک کا کہنا ہے کہ جوبائیڈن یمن جنگ کے مخالف تھے اور اب بھی اس جنگ کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

مزید دیکھئے: جنگ یمن کے خاتمے کا حکم دے سکتے ہیں بائیڈن، ذرائع کا دعوی

گری سیک نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ اگر امریکہ، برطانیہ اور فرانس، سعودی عرب کی لاجسٹک مدد ختم کردیں تو سعودی عرب نہ صرف فوجی مشینری کی دیکھ بھال بلکہ اسکو استعمال کرنے میں بھی شدید مشکلات کا شکار ہوسکتا ہے اور اس کے لئے اس جنگ کو زیادہ دیر تک جاری رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔

امریکی حکام کے بیانات اور یمن جنگ کے حوالے سے امریکی حکومت کی پالیسیوں میں تبدیلی کے امکانات نے ریاض کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے اور اب اسکی زبان سے جنگ بندی جیسے الفاظ سننے میں آ رہے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ سعودی وزیر خارجہ نے اپنے حالیہ بیان میں یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ یمن کے خلاف سعودی اتحاد جنگ بندی کا مخالف نہیں  اور انصاراللہ پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ وہ جنگ بندی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

فیصل بن فرحان آل سعود نے اس کے ساتھ ساتھ ٹرامپ حکومت کی طرف سے انصاراللہ کو دہشت گرد قرار دینے کے فیصلے کی بھی تائید و تعریف کی ہے۔ سعودی وزیر خارجہ کے اس بیان سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آل سعود جنگ یمن کے حوالے سے مخمصہ میں گرفتار ہو چکا ہے ۔

سعودی عرب انصاراللہ پر جنگ بندی کی مخالفت کا الزام عائد کر رہا ہے حالانکہ دسمبر دو ہزار اٹھارہ میں سوئیڈن میں ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے اور عمل درآمد میں انصاراللہ کا کردار سب سے نمایاں تھا جو کسی سے پوشیدہ نہیں جبکہ اسکے برخلاف سعودی عرب روزانہ کی بنیادوں پر الحدیدہ میں جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

بہرحال سعودی عرب کی طرف سے یمن میں جنگ بندی پر آمادگی، لیکن انصاراللہ کو اس جنگ بندی کے مذاکرات میں شامل نہ کرنا ، اس مسئلے کا حل نہیں اور انصار اللہ کی شرکت کے بغیر یمن میں جنگ سمیت کسی بحران کو حل نہیں کیا جا سکتا۔

 

ٹیگس