Apr ۰۵, ۲۰۲۱ ۲۲:۴۱ Asia/Tehran
  • سال کا سب سے بڑا لطیفہ: سعودی عرب خطے کے استحکام کی طرف سے تشویش میں ہے!

سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے یہ دعوی کرتے ہوئے کہ ان کے ملک نے اس بات کی طرف سے اطمینان حاصل کر لیا ہے کہ کسی بھی قسم کا نیا ایٹمی سمجھوتہ ایران کے لیے شدت سے واجب العمل ہوگا، کہا ہے کہ ہمیں پورا یقین ہے کہ عالمی برادری خطے کے عدم استحکام کو دور کرنے کے لیے سنجیدہ کوشش کرے گي جو ایران کی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے۔

ایٹمی معاہدے کے فریقوں کی جانب سے اپنے وعدوں پر عمل درآمد کی جانب واپسی کے مسئلے پر منگل کے روز ویانا میں ایران اور گروپ چار جمع ایک کی نشست ہوگي تا کہ پابندیوں کے خاتمے اور ایٹمی معاہدے پر عمل درآمد کے اقدامات طے کیے جائيں گے۔ فیصل بن فرحان کے حالیہ بیان سے لگتا ہے کہ یا تو انھیں اس نشست کے موضوعات کے بارے میں کچھ بھی خبر نہیں ہے یا پھر وہ کوما کی حالت میں ہیں۔

فیصل بن فرحان نے اپنے بیان میں ایران کے میزائیلوں اور اس کے علاقائي کردار کے بارے میں بھی لب کشائي کی ہے اور دعوی کیا ہے کہ ان کے ملک نے اس بات کی جانب سے اطمینان حاصل کیا ہے کہ نئے ایٹمی معاہدے میں غیر ایٹمی مسائل بھی شامل ہوں گے۔ اس سے پہلے انھوں نے ایٹمی مذاکرات میں سعودی عرب اور اسرائيل کو بھی شامل کیے جانے کا مطالبہ کیا تھا۔

جس نے بھی سعودی حکومت کو اس طرح کا اطمینان دلایا ہے، اس نے ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی واپسی اور پابندیوں کے بتدریج خاتمے کا حوالہ دیا ہوگا جسے ایران نے بھرپور طریقے سے مسترد کر دیا ہے اور اسی طرح امریکہ کے ساتھ کسی بھی طرح کے بالواسطہ یا بلاواسطہ مذاکرات کی بھی مخالفت کر دی ہے۔

جن لوگوں نے بن فرحان کو اس طرح کا اطمینان دلایا ہے وہ بھول گئے ہیں کہ ایران نے نہ صرف غیر ایٹمی مسائل کے بارے میں بلکہ خود ایٹمی معاہدے کے بارے میں بھی مذاکرات کو سختی سے مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ جن چیزوں کے بارے میں مذاکرات ہو چکے ہیں ان کے بارے میں وہ مذاکرات نہیں کرے گا اور ایٹمی معاہدے پر دستخط کرنے والوں کو اپنے وعدوں کو پورا کرنا چاہیے اور وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ کسی بھی صورت میں ان کے حق میں نہیں ہے۔

جہاں تک سعودی عرب کے وزیر خارجہ کی جانب سے خطے کے عدم استحکام پر تشویش ظاہر کرنے کی بات ہے تو انھیں یاد دلانا ضروری ہے کہ ایک عرب ملک کے وزیر اعظم کو ان کے ملک نے ہی یرغمال بنایا تھا اور اسے ریاض سے ہی استعفی دینے پر مجبور کیا تھا۔ اسی طرح ان کے ملک نے ہی سب سے غریب عرب ملک کے خلاف تباہ کن جنگ شروع کی ہے، اسی نے کئي عرب ملکوں پر اسرائيل سے تعلقات استوار کرنے کے لیے دباؤ ڈالا ہے، فلسطینی کاز کو طاق نسیاں کی زینت بنانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے اور اسرائيل سے لڑنے والے استقامتی گروہوں کے ساتھ پوری طاقت سے جنگ کی ہے۔ المختصر یہ کہ خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے والے سعودی عرب کے جرائم کی فہرست بڑی طویل ہے اس لیے فیصل بن فرحان اس سلسلے میں کچھ نہ کہتے ہوئے اپنا منہ بند ہی رکھیں تو بہتر ہے۔

ٹیگس