دوحہ میں بین الافغان مذاکرات کا پہلا دور ختم، فریقین کے نمائندوں کی شرکت ، ماحول اچھا تھا
قطر کی میزبانی میں افغانستان میں قیام امن کے لئے بین الافغان مذاکرات کا پہلا دور دوحہ میں ختم ہو گیا ۔
ہفتے کے روز ہونے والے مذاکرات میں افغانستان میں صلح کی اعلی کونسل کے سربراہ عبد اللہ عبد اللہ کی قیادت میں کئي اہم جماعتوں کے سربراہوں اور سیاسی ہستیوں نے شرکت کی جبکہ طالبان کے وفد کی قیادت، نائب سربراہ ملا عبد الغنی برادر کر رہے تھے ۔ امن مذاکرات میں افغانستان کے امور میں امریکہ کے نمائندے زلمی خلیل زاد بھی موجود تھے ۔
اجلاس سے ٹھیک پہلے ، افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئي نے شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ سرکاری وفد میں خاتون اراکین کی موجودگي قابل توجہ رہی ۔
فریقین کے اعلی مذاکرات کاروں نے دونوں فریقوں سے صبر و تحمل اور ذاتی مفادات کو نظر انداز کرنے کی اپیل کی ۔
حالانکہ اجلاس کو میڈیا کوریج سے دور رکھا گيا تاہم فریقین نے اجلاس کے دوران اپنی تقریروں کے کچھ حصے میڈیا کو دیئے ہيں ۔
طالبان کے وفد کے سربراہ ملا برادر نے زور دیا ہے کہ ایک مضبوط ، خود مختار اور مرکزی اسلامی نظام کی تشکیل کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ لازم ہے کہ ہمارے پاس ہمارے دین ، قومی عزت و مفادات کے تحت ایک نظام ہو اور غیر ملکی نظریات سے ہمیں ماضی میں فائدہ ہوا ہے نہ مستقبل میں کوئي فائدہ ملنے والا ہے ۔
حکومتی وفد کے سربراہ عبد اللہ عبد اللہ نے اجلاس کے آغاز سے قبل صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ دوحہ آنے والا وفد پورے اختیارات کے ساتھ آیا ہے اور امید ہے کہ یہ اجلاس کامیاب رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ قیام امن کے لئے فریقین کی جانب سے لچک ضروری ہے اور قتل و غارتگری جاری رہنے سے صرف افغان قوم کا نقصان ہوگا ۔
مختصر سے افتتاحی اجلاس میں یہ طے پایا ہے کہ دونوں فریقوں کے وفود سے چودہ لوگ، مذاکرات کے ایجنڈے کا تعین کریں گے ۔
اجلاس سے قبل دوحہ میں طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے صحافیوں سے ایک گفتگو میں کہا تھا کہ مذاکرات کا کوئي ایجنڈا نہيں ہے اور اس پر اجلاس کے دوران تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
اجلاس میں شریک کچھ سفارت کاروں نے جرمن نیوز ایجنسی کو بتایا ہے کہ اجلاس میں ماحول اچھا تھا جس سے امید بڑھی ہے ۔
طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے بھی زور دیا ہے کہ ہم مذاکرات کے اچھے نتائج کی بھرپور کوشش کر رہے ہيں ۔
عبد اللہ عبد اللہ نے اجلاس میں اپنی تقریر میں کہا ہے کہ افغانستان میں قتل و غارتگری و تشدد کا سد باب ضروری ہے اور اس کی راہ حل پر امن مذاکرات ہیں نہ کہ فوجی راستہ ۔
واضح رہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لئے مذاکرات کا آغاز ستمبر دو ہزار بیس میں ہوا تھا تاہم ابھی تک کوئي خاص کامیابی حاصل نہيں ہو پائی ۔