Jul ۱۸, ۲۰۲۱ ۰۹:۰۵ Asia/Tehran
  • یہ اردوغان کو کیا ہو گیا؟ ایک طرف اسرائیل سے رشتے بڑھانے کی خواہش اور دوسری طرف افغانستان میں فوجی مداخلت کی تمنا، کہیں ترکی کے لئے دلدل نہ بن جائے افغانستان

طالبان نے فوری اور سخت لہجے میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کو خبردار کیا ہے جو امریکا کے ساتھ ایک معاہدہ کرنا چاہتے ہیں جس کے تحت وہ نیٹو کے سارے فوجیوں کے افغانستان سے انخلا کی صورت میں بھی اپنے فوجیوں کو اس ملک میں باقی رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

طالبان نے ترکی کو خبردار کیا ہے کہ اس کے خطرناک نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ ترکی کی یہ پیشکش جسے اس ملک کے وزیر دفاع خلوصی آکار نے بیان کیا ہے اس وقت سامنے آئی ہے جب رجب طیب اردوغان نے اپنے اسرائیلی ہم منصب اسحاق ہرتسوگ کو فون کیا اور کہا کہ مغربی ایشیا کی سیکورٹی اور امن کے لئے اسرائیل اور ترکی کے درمیان دوستی اہم ہے۔

ہمیں یہ نہیں پتہ کہ ترکی اور امریکا کے درمیان ہونے والا معاہدہ کس طرح کا ہے لیکن اتنا تو پتہ ہے کہ یہ صرف کابل کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا معاملہ نہیں ہے بلکہ امریکا کی نمائندگی میں کام کرنے کا موضوع ہے اور اس کی بھاری قیمت ترکی کو چکانی پڑ سکتی ہے۔

یہ بھی صحیح ہے کہ افغانستان میں ترک فوجیوں کی تعداد 500 سے زیادہ نہيں  ہے لیکن امکان ہے کہ فوجیوں کی تعداد بڑھے گی اور ساتھ ہی بھاری ہتھیار بھی افغانستان بھیجے جائیں گے۔

افغانستان میں اس وقت داخلی جنگ کے حالات بن رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ترکی، افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی مضبوط کرنا چاہتا ہے یا شامی اور ترکمن جنگجوؤں کو افغانستان میں تعینات کرنا چاہتا ہے جیسا اس نے لیبیا، شام اور آذربائیجان میں کیا؟

طالبان کے سخت رد عمل کا مطلب یہ ہے کہ اگر ترکی نے اپنے فوجی تعینات کئے تو ان پر طالبان کی جانب سے حملے ہو سکتے ہیں۔ طالبان نے 20 سال سے زائد عرصے تک نیٹو کی فوجوں سے جنگ کی اور انہیں شکست دے کر افغانستان سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔

دوسری بات یہ ہے کہ طالبان نے اب چین، ایران اور روس جیسے بڑے ممالک سے رشتے قائم کر لئے ہیں۔ طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ چین، افغانستان کا دوست ملک ہے۔

امریکا نے افغانستان سے اپنے فوجیوں کو تو نکال لیا ہے لیکن سیاسی محاذ پر اس کی مداخلت جاری رہے گی اور اس کے لئے وہ طرح طرح کی سازشوں کا سہارا بھی لے گا جیسا اس نے شام، عراق، لیبیا اور مصر ميں کیا ہے۔

اردوغان کا مسئلہ یہ ہے کہ محبوبیت بری طرح محدود ہو جانے کے باوجود وہ کسی بھی قیمت پر اقتدار میں باقی رہنا چاہتے ہیں اور نہیں لگتا ہے کہ امریکا اور اسرائیل، اس مقصد میں سیڑھی کا رول ادا کرسکتے ہیں اور ترکی کا اقتصاد بھی ڈوبنے سے بچا سکتے ہیں لیکن کیا اردوغان کی یہ بڑی بھول ہے؟!

یمن کی طرح افغانستان بھی سوپر پاورس کا قبرستان ہے۔ یہاں برطانوی سامراج کو شکست ہوئی، سوویت یونین کو ایسے شکست  ہوئی کہ شیرازہ ہی بکھرگیا اور اب امریکا شکست کھا کر باہر نکلا ہے۔

ہم اردوغان سے بس اتنا کہیں گے کہ ترکی کو بھیڑوں کے چھتے میں مت جھونکئیے ورنہ اتنے ڈنک لگیں گے کہ پورا ملک اس کے درد کا احساس کرے گا۔

بشکریہ

عبدالباری عطوان

*مقالہ نگار کے موقف سے سحر عالمی نیٹ ورک کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے*

ٹیگس