Aug ۲۱, ۲۰۲۱ ۱۷:۵۸ Asia/Tehran
  • افغانستان میں نئی حکومت کے لیے صلاح و مشورے کا آغاز، ملا عبدالغنی برادر کے قیادت سنبھالنے کا امکان

طالبان کے قریبی ذرائع نے بتایا ہے کہ ان کے نائب سربراہ ملا عبدالغنی برادر نے کابل پہنچنے کے بعد نئی حکومت کے قیام کے لیے مذاکرات کا آغاز کر دیا ہے۔ ملا عبدالغنی برادر گزشتہ منگل کے روز دوحہ سے افغانستان کے شہر قندھار پہنچے تھے۔

ملا عبد الغنی برادر کی کابل آمد اور حکومت سازی کے لیے مذاکرات کے آغاز کو، اشرف غنی کے فرار اور کابل سمیت پورے افغانستان پر طالبان کے بعد انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

یہ قیاس آرئیاں بھی کی جارہی ہیں کہ ملا عبدالغنی برادر ہی طالبان کے آئندہ لیڈر ہوں گے کیونکہ افغانستان میں تیز رفتار پیشقدمی کے دوران طالبان میڈیا میں ملا ہبت اللہ کا نام کبھی نہیں لیا گیا جو اس وقت طالبان کے سربراہ سمجھے جاتے ہیں۔

خیال کیا جا رہا ہے کہ ملا عبد الغنی برادر ہی افغانستان کی آئندہ سیاست میں مؤثر کردار ادا کریں گے۔ ملا عبدالغنی بردار کا شمار طالبان کے چار بانی رہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے ملا محمد عمر کے ساتھ مل کر سن انیس سو چورانوے میں قندھار میں اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔

درایں اثنا طالبان ذرائع نے کہا کہ افغانستان کی آئندہ حکومت کے خدوخال چند ہفتے تک واضح کر دیے جائیں گے۔ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان کے قانونی، مذہبی اور خارجہ پالیسی کے ماہرین نئی حکومت کے خدو خال کے بارے میں صلاح و مشورہ کر رہے ہیں اور اس کے نتائج آئندہ چند روز میں میڈیا کے سامنے پیش کر دیئے جائیں گے۔

اگرچہ طالبان ملک میں وسیع البنیاد حکومت کے قیام پر زور دے رہے ہیں لیکن اس وعدے کی تکمیل نیز یہ کہ آئندہ حکومت میں دیگر قومیتوں اور مذاہب کو کتنا حصہ دیا جائے گا، اس بارے میں ابہام بدستور موجود ہے۔

اس دوران اطلاعات ہیں کہ سابق افغان صدر کے بھائی نے اعلی طالبان لیڈر کے ساتھ ملاقات میں، اپنی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ افغان طالبان کی جانب سے ایک ویڈیو جاری کیا گیا ہے جس میں حشمت غنی احمد زئی اور سینیئر طالبان رہنما خلیل الرحمان حقانی کو ملاقات کرتے دکھایا گیا ہے۔ طالبان لیڈر خلیل الرحمان حقانی نے اس سے پہلے، سابق صدر حامد کرزئی، اعلی مصالحی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ اور حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار سے بھی ملاقات کی تھی۔

قابل ذکر ہے کہ امریکی فوج کے انخلا کے ساتھ ہی طالبان نے افغانستان کے مختلف علاقوں میں حملے تیز کردیئے تھے اور محض دو ہفتے کے دوران وہ کابل کے دروازوں تک پہنچ گئے تھے۔ سابق صدر اشرف غنی کے ملک سے فرار ہونے کے بعد پندرہ اگست کو طالبان کابل میں داخل ہو گئے تھے اور اس وقت پنجشیر کو چھوڑ کے ملک کے سبھی صوبوں پر طالبان کا کنٹرول ہو چکا ہے۔

ٹیگس