Sep ۱۱, ۲۰۲۱ ۱۷:۳۰ Asia/Tehran
  • افغانستان میں پنجشیر کے شہریوں کی جبری نقل مکانی

افغانستان کے صوبے پنجشیر میں احمد مسعود کی زیر کمان طالبان مخالف محاذ نے طالبان کے حملوں کے بعد اس صوبے سے عام شہریوں کی جبری نقل مکانی کی خبر دی ہے۔

شمال مشرقی افغانستان کے صوبے پنجشیر میں احمد مسعود کی زیر کمان طالبان مخالف محاذ نے ایک ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ طالبان کے ہاتھوں صوبے پنجشیر میں عام شہریوں کے قتل عام اور لوگوں کی جبری نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے۔ اس ٹوئٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبے پنجشیر میں احمد مسعود کی زیر کمان طالبان مخالف محاذ کے جوان طالبان کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔ البتہ طالبان نے اب تک اس بارے میں اپنے کسی قسم کے ردعمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔

اس سے قبل صوبے پنجشیر میں طالبان مخالف اتحاد نے اس صوبے پر طالبان کا مکمل کنٹرول ہونے کے بارے میں کئے جانے والے دعوے کی تردید کی ہے۔

افغانستان میں طالبان نے پندرہ اگست کو اقتدار پر کنٹرول حاصل کیا ہے اور سات ستمبر کو اس گروہ نے عبوری حکومت کے اراکین کے ناموں کا اعلان کیا ہے۔یہ ایسی حالت میں ہے کہ صوبے پنجشیر میں افغانستان کے قومی ہیرو احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود کی زیر کمان طالبان مخالف محاذ نے طالبان کی عبوری حکومت پر اپنی مخالفت کا اظہار کیا ہے۔طالبان کے مخالفین نے اعلان کیا ہے کہ طالبان کی کابینہ کے اعلان سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ یہ کابینہ مکمل طور پر انحصار پسندی کا ثبوت ہے اور طالبان کے اس سے قبل کے اس اعلان کے بھی سراسر منافی ہے جس میں انہوں نے افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت کے قیام اور تمام اقوام کی شمولیت سے حکومت تشکیل دیئے جانے کی بات کی تھی۔

اس درمیان افغانستان کی اعلی مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے ان خبروں کی تردید کی ہے کہ طالبان نے انہیں گرفتار کرکے کسی نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے - عبداللہ عبداللہ نے اپنے ٹوئٹر پیج پر لکھا ہے کہ اس طرح کی خبروں میں کوئی سچائی نہیں ہے - مجھے نہ توگرفتار کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی نہ معلوم مقام پر منتقل کیا گیا ہے۔

اس درمیان اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی نے خبردار کیا ہے کہ اگر افغانستان کے لئے فوری طور پر امدادی اقدامات نہ کئے گئے تو یہ ملک شدید طور پر بھوک مری کا شکار ہو جائے گا۔یو این ڈی پی کے ریجنل ڈائریکٹر کانی ویناراجا نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اس وقت افغانستان کے بہتر فیصد عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جن کے پاس اپنے روزانہ کے اخراجات کے لئے ایک ڈالر سے بھی کم رقم موجود ہے اور اگر فوری طور پر اقدام نہ کیا گیا تو یہ تعداد سال کے آخر تک بڑھ کر ستانوے فیصد تک پہنچ جائے گی۔

ٹیگس