پنجشیر مزاحمتی محاذ اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان پہلی ملاقات
طالبان اور پنجشیر مزاحمتی محاذ کے نام سے موسوم گروہ نے مذاکرات کے اختتام تک ایک دوسرے کے ٹھکانوں پر حملہ نہ کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
افغان نیوز ایجنسی آوا کی رپورٹ کے مطابق احمد مسعود کے زیر قیادت پنجشیر مزاحمتی محاذ نامی گروہ کے ایک رکن نے کہا ہے کہ صوبہ پروان میں طالبان کے ساتھ ہونے والے پہلے دور کے مذاکرات میں فریقین نے طے کیا ہے کہ مذاکرات کے اختتام تک ایک دوسرے کے اڈوں پر حملے نہیں کریں گے۔
اس نشست میں طالبان کے وفد کی قیادت طالبان کی عارضی حکومت کے ادارہ انٹیلیجنس کے سربراہ محمد محسن ہاشمی اور پنجشیر مزاحمتی محاذ کی قیادت محمد الیاس زاہد کر رہے ہیں۔
پنجشیر مزاحمتی محاذ کے رکن محمد علم ایزدیار نے اس ملاقات کے بعد سوشل میڈیا فیس بک پیج پر کہا ہے کہ طے پایا ہے کہ فریقین ایک دوسرے کا پیغام اپنے اعلی حکام تک پہنچائیں گے اور ملک میں مستقل قیام امن و ثبات کے لئے مذاکرات جاری رکھیں گے۔
دوسری جانب طالبان نے اعلان کیا ہے کہ انھوں نے مذاکرات میں پنجشیر کے مسئلے کے حل کا مطالبہ کیا ہے لیکن مزاحمتی گروہ کا کہنا ہے کہ وہ آئندہ تشکیل پانے والے نظام حکومت کے ڈھانچے کے بارے میں طالبان سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں.
طالبان کے ثقافتی امور کے کمیشن کے رکن انعام اللہ سمنگانی نے اس سلسلے میں کہا کہ جو وفد پنجشیر سے آیا تھا اس کی زیادہ توجہ پورے نظام یا حکومت پر مرکوز تھی، لیکن چونکہ مطالبات میں کافی فرق تھا اس لئے طے پایا ہے کہ دونوں وفد مسائل کو اپنے رہنماؤں کے سامنے پیش کریں۔
طالبان کے سیاسی شعبے کے رکن نوراللہ نوری نے بھی امید ظاہر کی ہے کہ آئندہ دنوں میں ان مذاکرات کا نتیجہ سامنے آجائے گا۔ مزاحمتی پنجشیر محاذ کے رکن حامد سیفی نے بھی کہا ہے کہ حالیہ مذاکرات کے بارے میں ہمیں صبر کرنا چاہئے اور نتیجے کا انتظار کرنا چاہئے۔
ان حالات میں احمد مسعود نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ملک میں سب کی مشارکت سے تمام فریقوں کے لئے قابل قبول حکومت تشکیل نہ پائی تو افغانستان الگ تھلگ پڑ جائے گا۔ طالبان مخالف محاذ کے رہنما احمد مسعود نے کہا کہ ہم طالبان سے مذاکرات کر رہے ہیں اور ایک وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل کے مطالبے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔