افغانستان میں عام شہریوں کے قتل عام پر امریکہ میں کوئی سزا نہیں
امریکی وزارت جنگ نے افغانستان میں دس افغان شہریوں منجملہ سات بچوں کا قتل عام کرنے والے کسی بھی امریکی فوجی اہلکار کے خلاف کوئی تادیبی اقدام عمل میں نہ لانے کا فیصلہ کیا ہے۔
اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکی وزیر جنگ نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں ۲۹ اگست کے حملے کے سلسلے میں کسی بھی فوجی اہلکار کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی۔
امریکی فضائیہ کے تفتیشی امور کے عہدیدار جنرل سامی دی سعید نے جو اس سانحے کی تحقیقات پر مامور بھی تھے، نومبر کے مہینے میں دعوی کیا تھا کہ اس حملے سے جنگی قوانین کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی ہے البتہ کچھ شواہد اس بات کے ملے ہیں کہ کمانڈروں سے اس حملے کے سلسلے میں کچھ غلطیاں ہوئی ہیں۔
اس فوجی کمانڈر کا کہنا ہے کہ اگر اس وقت کی صورت حال کو درک کیا جائے تو اس بات کو سمجھا جا سکتا ہے کہ فوجیوں پر کافی دباؤ رہا ہے اس لئے اس قسم کی غلطیوں پر توجہ نہیں دی جا سکتی۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ اس سے قبل سینٹکام کی تحقیقات میں کہا گیا تھا کہ اس حملے میں ایک امدادی کارکن اور اس کے گھرانے کے نو افراد مارے گئے ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق امریکی فوجیوں نے جس گاڑی کو نشانہ بنایا اس کا ڈرائیور امریکی کمپنی میں بجلی کے ایک انجیئر کی حیثیت سے کام کرتا تھا اور اس کا نام زمری احمدی تھا جبکہ داعش و دہشت گردی سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔